صرف داؤد (ظاہری) کا ہے۔ ان کے اصحاب اور دوسرے علماء نے ان کی مخالفت کی ہے اور انہوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی مرفوع حدیث سے استدلال کیا ہے کہ: غلام کے ذمہ صدقۂ فطر کے علاوہ کوئی صدقہ نہیں ہے۔ (مسلم 2؍676) اور اس کا ماحصل یہ ہے کہ وہ اس کے آقا کے ذمہ ہے۔‘‘ (فتح الباری)
احناف کے ہاں صدقۂ فطر صاحب نصاب پر واجب ہے یعنی اس پر جس کے پاس زکاۃ کا نصاب ہو اور لڑکے کا صدقہ صرف باپ ادا کرے اور بقیہ امور درج بالا کے موافق ہوں گے۔ ہدایہ میں ہے:
(صدقة الفطر واجبة على الحر المسلم اذا كان مالكا لمقدار النصاب فاضلا عن مسكنه وثيابه واثاثه وفرسه وسلاحه وعبيده يخرج ذلك عن نفسه ويخرج عن اولاده الصغار ومماليكه. انتهى ملخصا.) (اولین: 208)
’’صدقۂ فطر آزاد مسلمان پر واجب ہے جبکہ وہ ایسی مقدار نصاب کا مالک ہو جو اپنے چھوٹے بچوں اور اپنے غلاموں کی طرف سے ادا کرے گا جو کہ اس کی رہائش گاہ، لباس، سامان، گھوڑے، اسلحہ اور غلاموں سے زائد ہو۔ (مختصرا)
صدقۂ فطر کی ادائیگی کا وقت:
صدقۂ فطر کی ادائیگی کا وقت نمازِ عید الفطر سے قبل ہے اور اگر کوئی عید سے دو یا تین یا زیادہ روز قبل ادا کر دے تو جائز ہو گا اور اگر نمازِ عید کے بعد ادا کرے گا تو ادا نہ ہو گا۔ کیونکہ آیتِ مذکورہ ﴿قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَكَّىٰ ﴿١٤﴾" کے بعد ﴿ وَذَكَرَ اسْمَ رَبِّهِ فَصَلَّىٰ ﴿١٥﴾" وارد ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ صدقۂ فطر نماز پر مقدم ہے، کیونکہ " فَصَلَّىٰ" فائے تعقیب کے ساتھ مذکور ہے جو کہ صدقہ کے بعد نماز کی ادائیگی کا فائدہ دیتی ہے۔ كما لا يخفى من له ادنى تأمل۔
|