Maktaba Wahhabi

42 - 386
میں شریعت کا وہ حکم ہے جو کسی مسائل کے جواب میں کوئی عالم دین اور احکام شریعت کے اندر بصیرت رکھنے والا شخص بیان کرے۔ اکثر علماء نے مفتی کے لئے اجتہاد کی شرط ضروری قرار دی ہے اور مقلّد کے فتویٰ کو درست نہیں بتایا، کیونکہ وہ دوسرے کی بات بغیر دلیل کے قبول کرتا ہے اس طرح وہ عالم نہیں رہتا اور جس کی یہ شان ہو اسے دوسرے کو فتویٰ دینے کا مجاز قرار نہیں دیا جا سکتا۔ البتہ اگر کوئی مجتہد عالم موجود نہ ہو تو ضرورت کے وقت مقلّد بھی فتویٰ دے سکتا ہے۔ [1] لیکن اس صورت میں بھی اس کے فتویٰ کو حقیقتاً فتویٰ نہیں کہا جائے گا کیونکہ وہ صرف اتنا کر سکتا ہے کہ اپنے امام کا قول نقل کر دے۔ [2] اللہ و رسول کا حکم بتانا اور شریعت کے اندر صحیح اور غلط، راجح اور مرجوح، حلال اور حرام کی تمیز دلائل کی روشنی میں کرنا اس کے بس سے باہر ہے اس سلسلے میں کوئی رائے ایک مجتہد ہی دے سکتا ہے۔ [3] جمہور علماء کے برخلاف احناف کے نزدیک مفتی کے لئے اجتہاد شرط صحت نہیں البتہ اولیٰ و بہتر ہے۔ [4] یہی وجہ ہے کہ ان کے متاخرین علماء کی کتابیں عام طور پر بے دلیل قیاسات اور تفریعات سے پر ہیں جو قوت اجتہاد سے محروم لوگوں کی کتاب و سنت سے ناواقفیت اور جمہور پسند ذہنیت کی غمازی کرتی ہیں۔ فتویٰ نویسی: کے آداب اور مفتی و مستفتی سے متعلق مختلف مباحث کا جائزہ لینا طوالت کا موجب ہو گا۔ [5] اس لئے ان سے صرف نظر کرتے ہوئے یہاں فتویٰ نویسی کی تاریخ
Flag Counter