Maktaba Wahhabi

42 - 58
وہ کہاں جاتے ہیں اور کب واپس گھر آتے ہیں۔(نہ) وہ انہیں نیکی کی طرف توجہ دلاتے ہیں نہ بری خصلتوں سے منع کرتے ہیں اور عجیب تر بات یہ ہے کہ وہ اپنے مال کی حفاظت اور اس کو بڑھانے میں سخت حریص ہوتے ہیں کہ ہر اس بات کے لیے مستعد رہتے ہیں جو اُن کے مال میں اضافے کا باعث بنے،حالانکہ انہیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ جس مال کو وہ بڑھا رہے ہیں وہ دوسروں کا ہے۔رہا اولاد کا مسئلہ تو یہ ان کی نظروں میں کچھ نہیں ہوتا ،حالانکہ ان کی محافظت دنیا و آخرت دونوں لحاظ سے ان کے لیے بہتر اور مفید تھی،نیز جیسے والد پر بچے کے خورد و نوش اور پوشاک کی ذمہ داری ہے،ایسے ہی اپنے بچے کے دل کو علم و ایمان کی غذا مہیا کرنا اور تقوی کا لباس پہنانا بھی واجب ہے اور یہ بات پہلی بات سے کہیں بہتر ہے۔ اولاد کے حقوق میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ان پر دستور کے مطابق خرچ کیا جائے جس میں اسراف ہو نہ بخل کیونکہ اولاد پر خرچ کرنا باپ کی لازمی ذمہ داری ہے اور اس میں اللہ کی نعمت کا شکر بھی ہے۔ اولاد کے حق میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اولاد کو ہبہ اور عطیہ دینے میں کسی ایک دوسرے پر فضیلت نہ دے کہ کسی کو کچھ دے دے اور دوسرے کو محروم رکھے کیونکہ یہ ظلم ہے اور اللہ ظالموں کو پسندنہیں کرتا،نیز اس سے خاندانی زندگی میں بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے۔ صحیحین ،یعنی بخاری و مسلم میں حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان کے والد بشیر بن سعد رضی اللہ عنہ نے انہیں ایک غلام ہبہ کیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات بتائی تو آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے دریافت فرمایا: :کیا تو نے ہر بیٹے کو ایک ایک غلام ہبہ کیا ہے؟"بشیر رضی اللہ عنہ کہنے لگے: نہیں ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تو پھر اس غلام کو واپس لے لے ۔" اور ایک روایت میں ہے کہ آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے فرمایا: «اتقوا الله واعدلوا بین اولادكم» (صحیح بخاری)
Flag Counter