وہ نا درست ہے اور اگر اس میں چاندی ملی ہوئی ہو یا ملمع ہو یا جڑاؤ ہو تو جائز ہے۔ یا یہ مطلب ہے کہ سونا بھی مطلق مباح ہے، مگر اس کا استعمال اچھا نہیں جیسے طلاق جائز ہے مگر اچھی نہیں یا یہ حدیث اس زیور کے حق میں ہے جس کی زکاۃ نہ دی جائے ۔۔۔ الخ (تقویۃ الایمان)
تو مولانا ممدوح کے نزدیک بھی توجیہات ثلاثہ کی بنا پر تقویٰ کی وجہ سے اچھا نہیں۔ فاذا جاء الاحتمال بطل الاستدلال كما لا يخفي۔
ابوداؤد کی وعیدِ ناز والی احادیث کی اسنادی حیثیت:
واضح رہے کہ ابوداؤد میں وعیدِ نار والی احادیث میں بنظرِ اسناد کلام ہے:
پہلا طریق:
حدثنا عَبْدُ اللهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، ثنا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَسِيدِ بْنِ أَبِي أَسِيدٍ الْبَرَّادُ، عَنْ نَافِعِ بْنِ عَيَّاشٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَنْ أَحَبَّ أَنْ يُحَلِّقَ حَبِيبَهُ حَلْقَةً مِنْ نَارٍ فَلْيُحَلِّقْهُ حَلْقَةً مِنْ ذَهَبٍ، وَمَنْ أَحَبَّ أَنْ يُسَوِّرَ حَبِيبَهُ سِوَارًا مِنْ نَارٍ فَلْيُسَوِّرْهُ سِوَارًا مِنْ ذَهَبٍ وَلَكِنْ عَلَيْكُمْ بِالْفِضَّةِ فَالْعَبُوا بِهَا (ابوداؤد 2؍225، مشکوٰۃ 2؍1256 البانی۔ اسید، قلیل الحدیث، تھذیب 1؍344)
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ جو کوئی یہ پسند کرے کہ اپنے دوست کو آگ کا کڑا پہنائے تو وہ اسے سونے کا کڑا پہنا دے، اور جو پسند کرے کہ اپنے دوست کو آگ کا کنگن پہنا دے تو وہ اسے سونے کا کنگن پہنا دے اور لیکن تم چاندی سے دل بہلاؤ۔‘‘
اس طریق میں عبدالعزیز اگرچہ صدوق تھا، لیکن کتب غیر سے روایت کرتا تھا اور خطا واقع ہوتی تھی جیسا کہ تقریب میں ہے:
|