ہے۔ تو ضروری تھا کہ ان کو مردوں کی نسبت زیادہ رخصت دی جاتی۔ اسی لئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ سونا میری امت کی عورتوں کے لئے حلال اور مردوں کے لئے حرام کیا گیا ہے۔‘‘ (حجۃ اللہ البالغہ)
پس شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کی بحث سے بھی یہی واضح ہوا کہ بہت زیادہ اسراف و اتراف اور فخر و نمود، منہی عنہ اور دوزخ کی وعید کا موجب ہے، اور عدم اسراف و نمود اس وعید میں داخل نہیں ہے۔ كما لا يخفي علي المتامل الماهر بكلام الشيخ المحدث
اور جو روایات سونے کے پہننے کے متعلق ابوداؤد وغیرہ میں موجود ہیں تو وہ تکثیرِ مزید و افراط پر محمول ہیں، چنانچہ جواز و عدم جواز کی احادیث کے مابین تطبیق دی جائے گی یا پھر عدمِ جواز والی روایات منسوخ تصور ہوں گی۔ جیسا کہ مندرجہ بالا امام بغوی رحمۃ اللہ علیہ، ابن شاہین رحمۃ اللہ علیہ، نووی رحمۃ اللہ علیہ، شیخ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ اور شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی تحریروں سے واضح ہے۔ لیکن شاہ صاحب اکثار کو فتویٰ سے ہٹ کر تقویٰ کی بنا پر منع کرتے ہیں کہ اجماع مسلمین کی مخالفت مستلزم نہ ہو۔ اسی طرح مولانا (شاہ) محمد اسماعیل شہید (رحمۃ اللہ علیہ) کی بحث بھی تقویۃ الایمان میں فتویٰ کی بجائے تقویٰ کی بنیاد پر ہے، کیونکہ تردیدات، تشکیکات اور منویعات کی ایک گونہ توجیہ کرتے ہوئے حتما وعیدِ نار تو نہیں ہو سکتی ہاں حدیث کے ظاہری اعتبار سے تو ممکن ہے، لیکن واضح نسخ ناممکن ہے۔
مولانا موصوف علیہ الرحمہ، ابوداؤد کی حدیث نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سونے کی بالی، نتھ، ہار، کنگن، چوڑیاں اور کینٹھی عورتوں کو پہننا حرام ہے، مگر دیگر احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں کو سونا پہننا جائز ہے اور مردوں کے لئے دونوں کا استعمال حرام ہے، خواہ دونوں مخلوط ہوں یا علیحدہ علیحدہ، تو اس مضمون کو یوں سمجھا جا سکتا ہے۔ یا یہ مطلب ہے کہ چاندی کا زیور عورتوں کو پہننا مطلقا پہننا درست ہے اور اگر صرف سونا جیسے کڑے، کینٹھی، بالیاں اور نتھ ہو تو
|