بیعت کا حکم
سوال:
حدیث " مَنْ مَاتَ وَلَيْسَ فِي عُنُقِهِ بَيْعةٌ مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّةً " ([1]) یعنی جو مرا اور اس کی گردن میں بیعت نہیں تو جاہلیت کی موت مرا کے کیا معنی ہیں؟
جواب:
اس حدیث کا یہ مطلب ہے کہ اگر باوجود ایمان کے کوئی بے بیعت مر جائے تو اس کی موت جاہلیت کی سی ہے، کیونکہ امام وقت کی بیعت نہ کرنا ایک قسم کی بغاوت ہے، اور امام پر بغاوت حرام اور کبیرہ گناہ ہے اور اس میں جماعت اہل اسلام کی مفارقت بھی ہے تو ایسے آدمی کی موت جاہلیت کی سی موت ہو گی، کیونکہ اس پر امام کی اطاعت فرض تھی جب تک صریح کفر کا اظہار نہ کرے اور اس نے بلاوجہ شرعی اس کو ترک کر دیا۔ ہاں اگر امام موجود نہ ہو اور موانع کے سبب اس کا قائم کرنا نہ ہو سکے تو امید ہے کہ یہ شخص اس حدیث کا مصداق نہ ہو گا۔ اس لئے ’’خیالی حاشیہ شرح عقائد نسفی‘‘ میں کہا کہ گناہ تب ہو گا جب قدرت اور اختیار سے ترک کر لے اور اگر ناچاری سے ترک کرے تو کچھ ڈر نہیں۔ انتہی
اور شرح مقاصد وغیرہ میں بھی اسی طرح ہے اور ظاہر بھی یہی ہے۔ ہاں اس میں شک نہیں کہ امت پر امام کا قائم کرنا دلیل سمعی سے واجب ہے، اور اس مسئلہ پر اجماع ہے۔ اسی لئے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دفن پر امام کے قائم کرنے کو مقدم رکھا اور اس کو اہم المقاصد ٹھہرایا، لیکن آخر زمانہ میں امت سے ضعف اسلام کے سبب امام کا قائم کرنا چھوٹ گیا اور یہ پہلا رخنہ نہیں جو اسلام میں پڑا ہو۔
|