Maktaba Wahhabi

214 - 386
استفتاء سوال: علمائے دین حق اس شخص کے متعلق ارشاد فرمائیں کہ: جو بلاعذر شرعی فرض نماز کو ترک کرے شرعا اس کا کیا حکم ہے اور اس کے ساتھ اختلاط، کھانا، پینا اور بولنا کیسا ہے؟ اور اگر زوجین میں ایک ایسا ہو تو نکاح باقی رہے گا یا نہیں اور صحبت حلال ہو گی یا حرام اور اولاد کیسی ہو گی؟ اور اگر ایسے شخص کے مرنے کے بعد زجرا اس کی نمازِ جنازہ نہ پڑھیں تو کیا ہے؟ اور اگر نماز کی نصیحت کو برا مانے یا کوئی کلمہ استخفاف کہے تو اس کا کیسا حکم ہے؟ بينوا توجروا جواب: عمدا نماز چھوڑنے والے کے متعلق صحابہ و محدثین و فقہاء کی آراء: تارك الصلاة عمدا کے باب میں علماء کے مختلف اقوال ہیں۔ صحابہ کرام میں حضرت عمر، عبداللہ بن مسعود، عبداللہ بن عباس، معاذ بن جبل، جابر بن عبداللہ، ابو الدرداء، ابو ہریرہ اور عبدالرحمٰن بن عوف رضوان اللہ علیہم اجمعین اور غیر صحابہ میں سے امام احمد بن حنبل، اسحاق بن راھویہ، امام نخعی، ایوب السختیانی، ابو داؤد، الطیالسی اور ابوبکر بن الشیبہ رحمہم اللہ کا قول ہے کہ وہ شخص کافر ہو جاتا ہے۔ اور حماد بن زید، مکحول، امام شافعی اور امام مالک رحمہم اللہ کے نزدیک کافر تو نہیں ہوتا مگر قتل کیا جائے۔ (صلاۃ رسول ص 227 تخریج عبدالروؤف) اور امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک کفر اور قتل کا حکم نہیں کیا جاتا، مگر قید سخت میں رکھنا چاہئے اور خوب سزا دینی چاہیے اور اس قدر مارا جائے کہ بدن سے خون بہنے لگ جائے تاآنکہ توبہ کر لے یا اسی حالت میں مر جائے۔ (تفسیر مظہری و نفع المفتی و درمختار ص 180) اور اس سے اختلاط و خوردونوش و گفتگو ترک کر دینا چاہیے کہ اس وقت حبس کی
Flag Counter