بہرحال اعتبار مطلق کا نہیں بلکہ ضرر پہنچنے کا ہے۔ اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے فرمان " أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ " کا ظاہر یہ ہے کہ سفر کا ذکر صورت سمجھانے اور ذہن سامع کی طرف قریب کرنے کے لئے ہے کہ پانی کی عدم دستیابی کی صورت میں سامع کے خیال میں جلدی آ جائے اور احادیث و اخبار میں بھی یہی ثابت ہے اور آیت کا بھی یہی مقتضی ہے کیونکہ " فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً " (سورۃ النساء: 43) سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ تیمم کے حکم کا مدار پانی کی عدم دستیابی پر ہے۔ مصفی (شرح مؤطا) میں ہے " فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً " ظاہر یہ ہے کہ یہ سفر سے متعلق ہے کیونکہ مرض میں پانی کا ہونا تیمم کو مانع نہیں، اور یہ بھی احتمال ہے کہ مراد یہ ہو کہ پانی کے استعمال پر قادر نہ ہو، اس لئے کہ مریض کا پانی پانا اور نہ پانا برابر ہے۔ اور امام شوکانی کی تفسیر سے ظاہر یہ ہے کہ " فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً " کی قید کو جنابت اور تیمم سے خاص کرنے کا احتمال ہے، چنانچہ کہا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان " فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً " اگر یہ قید جمیعِ ما تقدم کی طرف راجع ہو یعنی شرط کے بعد جس کا ذکر ہوا وہ مرض، سفر، صحراء سے آنا اور عورتوں سے صحبت کرنا ہے۔
کیا سفر اور مرض میں تیمم جائز ہے:
اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ صرف سفر اور مرض سے تیمم کرنا جائز نہیں ہوتا بلکہ اس کے ساتھ پانی کی عدم دستیابی بھی لازم ہے، پس مریض کو تیمم کرنا جائز نہ ہو گا مگر جس وقت پانی میسر نہ آئے۔ اور علی ھذا القیاس مسافر کو بھی تیمم کرنا تبھی جائز ہو گا جبکہ پانی نہ ملے، لیکن اس پر یہ اشکال ہے کہ پانی کے نہ ملنے کے وقت تو تندرست بھی مریض کی طرح تیمم کر سکتا ہے۔ پس مرض اور سفر کے صریح ذکر کرنے کے لئے ضرور کوئی فائدہ ہونا چاہیے! بعض نے یہ وجہ بیان کی ہے کہ مریض کے بارے میں پانی کی عدم دستیابی اکثر واقع ہوتی ہے۔ اور اگر قید پچھلی دو صورتوں (یعنی صحراء سے آنے اور عورتوں سے صحبت کرنے) کی طرف راجع ہو جیسے بعض مفسرین نے کہا تو اس میں یہ اشکال ہو گا کہ جس پر مریض اور مسافر کا لفظ صادق آئے اس کو تیمم کرنا جائز ہے، خواہ پانی مل سکے اور اس کے استعمال پر بھی قادر ہو اور بعض نے کہا کہ یہ قید پچھلی صورت کی
|