قال حماد ثم لقيت عمروا فحدثني به ولم يرفعه (صحیح مسلم مختصرا)
’’حماد نے کہا پھر میں عمرو سے ملا تو انہوں نے مجھے حدیث بیان کی لیکن مرفوع نہیں کہا۔‘‘ (مسلم)
قوله: قال حماد ثم لقيت عمروا فحدثني به ولم يرفعه” هذا الكلام لا يقدح في صحة الحديث ورفعه لان اكثر الرواة رفعوه. وقال الترمذي و رواية الرفع اصح، وقد قدمنا في الفصول السابقة في مقدمة الكتاب ان الرفع مقدم علي الوقف علي المذهب الصحيح وان كان عدد الرفع اقل فكيف اذا كان اكثر۔ (نووي شرح مسلم، وهكذا في تدريب الراوي 1؍247)
’’ان کا یہ کہنا: کہ حماد نے کہا پھر میں عمرو کو ملا تو مجھے انہوں نے بیان کیا اور اس کو مرفوع نہیں کہا‘‘ یہ صحت حدیث اور مرفوع ہونے میں مضر نہیں ہے، اس لئے کہ اکثر رواۃ نے اس کو مرفوع بیان کیا ہے، ترمذی نے کہا: مرفوع ہونا زیادہ درست ہے۔ اور یہ بات مقدمۃ الکتاب کی سابقہ فصول میں بیان ہو چکی ہے کہ: صحیح مذہب میں مرفوع، موقوف پر مقدم ہے اگرچہ مرفوع کی تعداد کم ہو، تو اس کا حال کیسا ہو گا جہاں مرفوع کی تعداد بھی زیادہ ہو۔‘‘ (تدریب الراوی)
گوشہ ٔ مسجد میں سنتیں پڑھنے کی دلیل اور اس کا جواب:
یاد رہے کہ ابراہیم حلبی شارح منية المصلي تلمیذ ابن الہمام وغیرہ نے طحاوی وغیرہ سے جو نقل کیا ہے کہ: صحابہ سے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور ابوالدرداء رضی اللہ عنہ اور تابعین میں سے مسروق، حسن بصری اور ابن جبیر وغیرہ نے جماعت کھڑی ہو جانے کے بعد سنتِ فجر گوشہ مسجد میں پڑھ کر جماعت میں شامل ہوئے تو اس دلیل سے مسجد میں
|