قضا نہیں ہے اور جو فرضِ عین ہے، اس کی قضا لازم ہو، قاعدہ حکمیہ نہیں ہے، بلکہ محض دلیل ہے۔ كما تقرر في الاصول۔
صدقۂ فطر کس پر فرض ہے:
صدقۂ فطر ہر مسلمان، مرد و عورت، بچہ و جوان، غلام و آزاد اور امیر و غریب پر فرض ہے جو اس کی استطاعت رکھتا ہو جیسا کہ حدیث مذکورۃ الصدر سے عیاں ہے کہ صاحب نصاب ہونے کی شرط نہیں بلکہ مطلق ہے، جیسے دارقطنی اور احمد کی روایت میں تصریح بھی ہے کہ فقیر پر بھی فرض ہے۔ اس کا استدلال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرماں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث سے کیا ہے کہ
(فطرة الصائم على أنها تجب على الفقير كما تجب على الغني وقد ورد ذلك صريحاً في حديث أبي هريرة عند أحمد وفي حديث ثعلبة بن أبي صعير عند الدار قطني)
(فتح الباری 3؍369، دارقطنی 2؍148)
’’روزے دار کا صدقۂ فطر جیسا مالدار پر فرض ہے ویسا ہی تنگدست پر بھی ہے اور یہ مسند احمد میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اور دارقطنی میں ثعلبہ بن ابی صغیر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں صریحا منقول ہے۔‘‘
مگر استطاعت ضروری ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(لَا يُكَلِّفُ اللَّـهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا۔)(البقرۃ: آیت 286)
لڑکی کا اگر مال ہو تو اس کا ولی اس میں سے صدقۂ فطر نکالے اور اگر مال نہ ہو تو اس کی طرف سے اس کا باپ یا جس پر اس کا نفقہ واجب ہو ادا کرے۔ یہی قول جمہور کا ہے، جیسا کہ نیل الاوطار میں ہے:
(وجوب فطرة الصغير فى ماله والمخاطب باخراجها وليه ان كان للصغير مال و الا وجبت على من تلزمه
|