اقتصر على الواجبات۔ انتهى (فتح الباری 3؍368)
’’فرمان الٰہی : ﴿ قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَكَّىٰ ﴿١٤﴾" زکاۃ الفطر کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور صحیحین میں، فلاح اس کے لئے ثابت ہوئی ہے جو صرف فرائض ادا کرے۔‘‘
ان احادیث صحیحہ موعودہ میں سے ایک یہ ہے:
عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: فَرَضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَكَاةَ الْفِطْرِ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ، أَوْ مِنْ شَعِيرٍ عَلَى الْحُرِّ وَالْعَبْدِ، وَالذَّكَرِ والْأُنْثَى، والصَّغِيرِ وَالْكَبِيرِ مِنَ الْمُسْلِمِينَ، وَأَمَرَ بِهَا أَنْ تُؤَدَّى قَبْلَ خُرُوجِ النَّاسِ إِلَى الصَّلاةِ۔ (رواہ البخاری و مسلم، بخاری زکوۃ حدیث 1580۔ مسلم 2؍677، مصابیح السنۃ 2؍25)
’’حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صاع کھجور سے یا ایک صاع جو سے، یا اس سے جو ان کے سوا اور کھانے کی چیزیں ہیں جن کا بیان ان شاءاللہ آئندہ آئے گا‘‘ ہر مسلمان میں سے غلام اور آزاد، مرد و عورت، بچے اور جوان پر فرض کیا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا کہ لوگوں کے ’’نمازِ عید‘‘ کی طرف نکلنے سے قبل ادا کیا جائے۔‘‘ (بخاری و مسلم)
اس حدیث سے صراحۃ فطر کی فرضیت ثابت ہوتی ہے۔ حدیث میں لفظ ’’فرض‘‘ موجود ہے اور فرض کے دوسرے معنی مراد لینا بغیر کسی قرینہ صارفہ کے صحیح نہیں، کیونکہ فرض کا یہ معنی حقیقت شرعیہ ہے، کما تقرر فی الاصول۔ اس باب میں اس کے علاوہ اور بھی بہت سی احادیث ہیں۔ طوالت کے خدشہ سے ایک پر ہی اکتفا کیا گیا ہے۔ چنانچہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صدقۃ الفطر کے فرض ہونے پر ایک باب قائم کیا ہے، مگر اس کی
|