ہماری عید گاہ کے قریب نہ آئے۔‘‘ (ابن ماجہ، احمد و رجالہ ثقات)
لیکن اس کے مرفوع و موقوف ہونے میں اختلاف ہے طحاوی رحمۃ اللہ علیہ اور دیگر ائمہ نے اس کے موقوف ہونے کو قریب تر کہا ہے۔ نیز اس سے وجوب کی صراحت نہیں ہوتی۔ (انتھیٰ ملخصا)
اور قربانی کے لئے صاحبِ نصاب ہونا بھی شرط نہیں ہے، کیونکہ اس شرط کے لئے کوئی دلیل ثابت نہیں، بلکہ صرف استطاعت اور قدرت ہونی چاہیے، جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی مذکورہ حدیث میں ہے۔ كما لا يخفى۔
مسافر کی قربانی:
اور اقامت (یعنی مسافر نہ ہونا) بھی شرط نہیں ہے، کیونکہ اس پر بھی کوئی دلیل نہیں ہے، بلکہ دلیل اس کے مخالف ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح بخاری میں باب الاضحيه للمسافر والنساء (یعنی مسافر اور عورت کی قربانی) قائم کیا ہے۔ اور اس میں فرمایا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر مکہ کے دوران قربانی کی ہے۔
اس پر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
فيه اشارة الى خلاف من قال ان المسافر لا اضحية عليه۔
’’اس باب و حدیث کو لا کر امام بخاری رحمہ اللہ نے سفر میں قربانی نہ ہونے والے قول کی مخالفت ثابت کی ہے۔‘‘(فتح الباری 10؍5)
اس میں مسافر پر قربانی کے نہ ہونے کے قائل کی مخالفت کا اشارہ پایا جاتا ہے۔ اس سے بالصراحت واضح ہوا کہ اقامت قربانی کے لئے شرط نہیں ہے۔ كما لا يخفى ۔ نیز احناف کے نزدیک قربانی صاحبِ نصابِ زکوٰۃ پر اس طرح واجب ہے جیسا کہ صدقۃ الفطر، بشرطیکہ مسافر نہ ہو۔ ہدایہ میں ہے:
" الاضحية واجبة على كل حر مسلم مقيم موسر فى يوم الاضحى على نفسه وعلى ولده الصغار والنساء لما روينا من اشتراط السعة ومقداره ما يجب به صدقة
|