Maktaba Wahhabi

100 - 386
ہوتی۔ اس لئے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی حلت ثابت ہے۔ كما لا يخفى من له فهم سليم۔ اور اس کا سنت ہونا دلائل سے ثابت ہے جن کی تفصیل بوجہ اختصار یہاں ترک کر دی گئی ہے۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے فتح الباری 10 ص 3 میں سنیت کی ترجمانی کرتے ہوئے اس کے وجوب کے قائلین کی مخالفت کا عندیہ ظاہر کیا ہے۔ "قال ابن حزم: لا يصح عن احد من الصحابة انها واجبة و صح انها غير واجبة عن الجمهور، وعن محمد بن الحسن هى سنة غير مرخصة فى تركها، وقال الطحاوى وبه ناخذ وليس فى الاثار ما يدل على وجوبها، انتهى و اقرب ما يتمسك به للوجوب حديث ابى هريرة رضى الله عنه رفعه: من وجد سعة فلم يضح، فلا يقربن مصلانا، اخرجه ابن ماجه و احمد ورجاله ثقات، لكن اختلف فى رفعه ووقفه والموقوف اشبه بالصواب، قاله الطحاوى وغيره رفع ذلك فليس صريح فى الوجوب، انتهى ملخصا" (محلی ابن حزم 7؍358، ھدایہ 4؍427) ’’ ابن حزم کہتے ہیں صحابہ کرام سے کسی ایک سے بھی وارد نہیں کہ یہ واجب ہے، بلکہ جمہور سے اس کا غیر واجب ہونا منقول ہے۔ اور محمد بن الحسن رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ یہ ایسی سنت ہے جس کے ترک کی اجازت نہیں۔ طحاوی نے کہا یہی ہمارا مذہب ہے اور آثار سے اس کے وجوب کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ انتہی۔ اور زیادہ سے زیادہ جس سے وجوب کی دلیل اخذ کی جا سکتی ہے وہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی وہ حدیث ہے جسے وہ مرفوع بیان کرتے ہیں: کہ جو شخص استطاعت کے باوجود قربانی نہ کرے وہ
Flag Counter