تیسرا:
یہ کہ اضافت تعظیم کی وجہ سے ہے جیسے بیت اللہ اور روح اللہ کہتے ہیں کیونکہ ان کی ابتداء پہلے کسی مثال پر واقع نہیں ہوئی۔
چوتھا:
قول یہ کہ، یہ حدیث صفات میں سے ہے جس کی تاویل نہیں ہو سکتی۔
پانچواں:
یہ کہ ضمیراخ یا عبد کی طرف سے راجع ہے جیسا کہ ایک روایت میں ہے۔
إِذَا ضَرَبَ أَحَدُكُمْ فَلْيَجْتَنِبِ الْوَجْهَ ([1])
’’یعنی جب کوئی تم سب سے اپنے بھائی کو مارے تو چہرے پر نہ مارے۔‘‘
چھٹا:
یہ کہ حضرت آدم علیہ السلام کو ایسی صورت میں پیدا کیا کہ حیوان کی کوئی نوع اس صورت میں اس کی شریک نہیں۔ کیونکہ یہ کبھی علم، کبھی جہالت، کبھی نیکی اور کبھی گناہ کے ساتھ موصوف ہے۔
ساتواں:
یہ کہ عجیب شکل پر جمال و کمال سے پیدا ہوا اور پہلے اس کی کوئی مثال نہ تھی اسی لئے اس کو عالم صغیر کہتے ہیں کہ ہر مخلوق سے اس میں نمونہ ہے۔
آٹھواں:
یہ کہ خدا تعالیٰ کی صورت ہے، چنانچہ ایک روایت میں آیا ہے " عَلَى صُورَةِ الرَّحْمَنِ " لیکن اہل الحدیث کے ہاں یہ روایت صحت کو نہیں پہنچتی اور اگر مان بھی لیں تو
|