اسی کی مثل ابوداؤد اور ترمذی نے قبیصہ بن ذویب کی حدیث سے نقل کیا اور اس میں ہے کہ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وہی شخص لایا گیا یعنی چوتھی بار، تو آپ نے اسے کوڑے مارے اور قتل کو منسوخ کر دیا۔ اور امام احمد کی روایت میں حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے یوں آیا ہے کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک نشے والا لایا گیا تو چوتھی بار آپ نے اس کا رستہ چھوڑ دیا۔
اہل علم کے اتفاق سے منسوخ حدیث پر عمل کرنا جائز نہیں۔ رہی پہلی حدیث وہ اس لفظ سے بھی وارد ہوئی ہے " مِنْ غَيْرِ خَوْفٍ وَلا سَفَرٍ " یعنی بغیر خوف اور سفر کے۔ اور اس لفظ سے بھی آئی ہے " مِنْ غَيْرِ خَوْفٍ وَلَا مَطَرٍ " یعنی بلا خوف اور بغیر بارش کے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ تینوں (لفظ) اکٹھے (یعنی خوف، مطر اور سفر) کسی حدیث کی کتاب میں ایک ہی روایت میں نہیں آئے بلکہ مشہور " مِنْ غَيْرِ خَوْفٍ وَلا سَفَرٍ " ہے۔ انتہی۔
اور حدیث کا آخر یہ ہے کہ: ابن عباس رضی اللہ عنہ سے کہا گیا کہ: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس جمع کرنے سے کیا مراد تھی؟ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارادہ کیا کہ امت کو حرج نہ ہو۔ اور اس حدیث کو طبرانی نے اوسط اور کبیر میں، ہیثمی نے مجمع الزوائد میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے بھی ان الفاظ سے نقل کیا ہے:
جَمَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ وَالْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ. فقيل له في ذلك قال: صنعت ذلك أَنْ لاَ يُحْرِجَ أُمَّتي ۔ ([1])
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر اور عصر، مغرب اور عشاء کو جمع کیا تو آپ سے اس کا سبب پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: یہ میں نے اس لئے کیا ہے تاکہ میری امت پر حرج نہ ہو۔‘‘
|