اور لوگ بھی ولد الزنا کے سوا پڑھے ہوئے ہوں تب اس کا امام بنانا مکروہ ہے اور جب اور کوئی پڑھا ہوا نہ ہو تب مکروہ نہیں ہے۔
و ولد الزنا هذا ان وجد غيرهم والا فلا كراهة (بحر کذا فی در المختار 1؍54-55)
’’اور ولد الزنا کے علاوہ اگر دوسرے لوگ پائے جائیں تو وہ امامت کروائیں، اور اگر نہ ہوں تو پھر اس کی امامت میں کوئی کراہت نہیں ہے۔‘‘
اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک مستقل امام مقرر کرنا مکروہ ہے، البتہ کبھی کبھار بنا لینا مکروہ نہیں ہے، جیسا کہ مندرجہ بالا فتح الباری کی عبارت سے مترشح ہے، اب ان کی دلیل دیکھئے!
پہلی دلیل:
ان کی یہ ہے کہ اس کا کوئی مشفق باپ نہیں جو اسے تعلیم دے، سو غالب خیال ہے کہ وہ جاہل ہے۔
یہ ایسی لا یعنی دلیل ہے کہ اسے رد کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ اس کا حاصل یہ ہے کہ اس کی کراہت کا سبب جہالت ہے۔ سو ولد الزنا ہونے کو کچھ دخل نہ ہوا بلکہ اس کی بنیاد جہالت ہے، تو کلیۃ اس کی امامت کو مکروہ کہنا غلط ہوا بلکہ جیسے اور جاہل مسلمان کی امامت مکروہ ہے، اگر یہ بھی جاہل ہو گا تو اس کی امامت بھی مکروہ ہو گی اس کو الگ بیان کرنے کی حاجت نہیں ہے بلکہ اس کو الگ بیان کرنا مضر ہے کہ لوگوں کے دلوں میں یہ بات جم گئی کہ ولد الزنا خود ایسا عیب شرعی ہے جس سے امامت مکروہ ہوتی ہے حالانکہ یہ بات نہیں ہے، جو لوگ مکروہ کہتے ہیں ان کا بھی یہ مذہب نہیں ہے تو اسے الگ بیان کرنے سے لوگوں کے دلوں میں کیسا فاسد اعتقاد بیٹھ جائے گا۔ نعوذ باللہ۔ چنانچہ امام طحطاوی حنفی المذہب نے اس دلیل کو لا یعنی کہا ہے:
قوله: وولد الزنا لتنفر الناس عنه وما قيل لانه ليس له اب
|