ہے کہ لفظ جمع بین الظہر والعصر دونوں کے وقتوں میں عام نہیں۔ چنانچہ مختصر المنتہی اور اس کی شرح غایت اور اس کی شرح وغیرہ اصول کی کتابوں میں ہے، بلکہ اس کا مدلول لغت کی رو سے ہئیت اجتماعیہ ہے اور یہ جمع تقدیم، جمع تاخیر اور جمع صوری میں موجود ہے، مگر یہ نہیں کہ یہ سب کو یا دو دو شامل ہو، کیونکہ فعل سب اقسام میں عام نہیں ہوتا، چنانچہ ائمہ اصول نے اس کی تصریح کر دی ہے۔ سو ان مذکورہ صورتوں سے ایک صورت بلا دلیل متعین نہیں ہو سکتی اور یہ دلیل اس بات پر قائم ہے کہ جمع جو اس حدیث میں مذکور ہے وہ جمع صوری ہے تو اس کی طرف رجوع لازمی ہے۔ انتہی ([1])
اس کے بعد حافظ ابن حجر اور متاخرین کا بسط سے جواب دیا ہے (جنہوں نے کہا کہ جمع صورت شرع میں نہیں آئی اور راوی کا قول " لَا يُحْرِجَ أُمَّتَهُ " جمع صوری پر محمول کرنے سے مانع ہے) اس کے بعد کہا کہ: ان دلائل میں سے جو اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ متنازع فیہ جمع بلا عذر جائز نہیں۔ ترمذی میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
مَنْ جَمَعَ بَيْنَ صَلاتَيْنِ مِنْ غَيْرِ عُذْرٍ فَقَدْ أَتَى بَابًا مِنْ أَبْوَابِ الْكَبَائِرِ ([2])
’’جس نے دو نمازوں کو بغیر عذر کے جمع کیا تو وہ کبیرہ گناہوں کے دروازوں میں سے ایک دروازے میں داخل ہوا۔‘‘
|