اور متعین ہے، کیونکہ نسائی نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کی اصل حدیث میں اس کی تصریح کی ہے اور اس کے الفاظ یہ ہیں:
صَلَّيْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْمَدِينَةِ ثَمَانِيًا جَمِيعًا وَسَبْعًا أَخَّرَ الظُّهْرَ وَعَجَّلَ الْعَصْرَ، وَأَخَّرَ الْمَغْرِبَ وَعَجَّلَ الْعِشَاءَ۔ ([1])
’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ میں آٹھ رکعت، ظہر و عصر، اور سات رکعت مغرب و عشاء کی جمع کر کے پڑھی، ظہر کو مؤخر کیا اور عصر کو معجل، مغرب کو مؤخر اور عشاء کو معجل کیا۔‘‘
پس خود ابن عباس رضی اللہ عنہ سے جو اس حدیث کے راوی ہیں، گویا اس بات کی تصریح کرتے ہیں کہ یہ جمع صوری تھی۔ اور عجب ہے کہ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے اس تاویل کو ضعیف کہا اور مروی حدیث کے متن سے غافل رہے، اور جب ایک قصہ میں ہو، مطلق روایت میں مقید محمول ہوتا ہے جیسا کہ یہاں ایک ہی واقعہ میں ہے،۔ انتہی کلام البدر۔
اور سبل السلام شرح بلوغ المرام میں کہا: یہ کلام قوی ہے اور ہم نے اس کے قریب قریب اپنے رسالے "الیواقیت فی المواقیت" میں ذکر کیا۔ انتہی ([2])
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے کہا: یہ بات جمع صوری کی تقویت دیتی ہے کہ اس حدیث کے سب طرق میں وقت جمع کا کوئی ذکر نہیں، یا مطلق پر محمول ہو گی تو اس سے نماز کا وقت محدود سے نکال دینا لازم آتا ہے یا اس صفت مخصوص پر محمول کیا جائے جس سے نماز کا وقت سے نکالنا لازم نہیں آتا، اور متفرق احادیث کو اسی تاویل سے جمع کیا جائے تو اس لحاظ سے جمع صوری پر منطبق کرنا بہتر ہے۔ واللہ اعلم، انتہی
شوکانی نے دراری مضیہ میں کہا: اگر جمع صوری پر محمول کیا جائے تو درحقیقت جمع نہیں، اس لئے کہ ہر نماز اپنے وقت مقررہ میں پڑھی گئی، بلکہ صورت میں جمع ہے، لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مدینہ میں بغیر بارش ([3]) اور سفر کے جمع کرنے
|