ہوتا ہے یہ اس پر دلیل ہے کہ "دبر" سے مراد مابعد صلاۃ ہے۔ یعنی فراغت کے بعد۔ اور ابوداؤد کی حدیث کا یہ اضافہ " اثر كل صلوة " (ہر نماز کے بعد) اس کو اچھی طرح مزید واضح کر دیتا ہے اور یہ حدیث:
مَنْ سَبَّحَ دُبُرِ صَلاَةِ الغَدَاةِ مِائَةَ تَسْبِيحَةٍ، وَهَلَّلَ مِائَةَ تَهْلِيلَةٍ، غُفِرَتْ لَهُ ذُنُوبُهُ وَلَوْ كَانَتْ مِثْلَ زَبَدِ البَحْرِ ([1])
’’جو کوئی نماز فجر کے بعد سو بار سبحان اللہ اور سو بار لا اله الا الله پڑھے اس کے گناہ بخش دئیے جاتے ہیں اگرچہ دریا کی جھاگ کے برابر ہوں۔‘‘
یہاں پر دبر سے مراد مابعد نماز ہے یعنی سلام پھیر کر نماز سے نکل جانے کے بعد کا مفہوم ہے۔ اور حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کی حدیث اس مطلب کو مزید واضح کرتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ قَالَ فِي دُبُرِ صَلاَةِ الفَجْرِ وَهُوَ ثَانٍ رِجْلَيْهِ قَبْلَ أَنْ يَتَكَلَّمَ: لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الحَمْدُ يُحْيِي وَيُمِيتُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ. اخرجه الترمذي ([2])
’’جو کوئی فجر کی نماز کے بعد اسی حال میں کہ وہ اپنا پاؤں موڑے ہوئے ہو (یعنی تشھد کی حالت میں بیٹھا ہوا ہو) کلام کرنے سے قبل لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ ۔۔۔ الخ کے آخر تک کہے۔‘‘
سو یہ مقام خلاف میں نص ہے، اس لئے یہاں اگر " دُبُرِ صَلاَةِ " سے مراد قبل سلام رکھا جائے تو " ثَانٍ رِجْلَيْهِ " اور " قَبْلَ أَنْ يَتَكَلَّمَ " کی قید بےکار ہو جاتی ہیں۔ پس دعا فرض کے بعد ثابت ہوئی، اور حافظ ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ کی سلام سے قبل کی تخصیص ختم ہو گئی، لیکن فتح الباری میں کہتے ہیں کہ: اکثر حنابلہ جن سے میری ملاقات نہیں ہے
|