اگر صلاۃ مکتوبہ سے بعد تشہدِ سلام سے قبل مراد لیا جائے تو مصنف کا قول حدیث سے موافق ہو سکتا ہے۔ انتہی
حافظ ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ کی رائے:
اور حافظ ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ کا بھی یہی مذہب ہے، چنانچہ انہوں نے ’’ھدی نبوی‘‘ ([1]) میں کہا کہ:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز سے متعلق اکثر جو دعائیں فرمائیں یا پڑھیں وہ نماز کے اندر تھیں، انتہی۔ یعنی ’’مابعد صلاۃ‘‘سے آخر کا، قریب مراد ہے جو کہ تشھد ہے نہ کہ بعد از سلام۔ اور حافظ ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے استاد امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ سے اسی طرح نقل کیا ہے۔ سو اگر ان کا یہ دعویٰ صحیح ہو جائے تو دعا میں ہاتھ اٹھانا بھی ثابت ہو جائے گا، لیکن اس کے ثبوت میں کلام ہے۔ کیونکہ دبر کا اطلاق اس چیز پر آتا ہے جو صاحب دبر کی جنس میں داخل ہو۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کے اس قول میں: وَمَن يُوَلِّهِمْ يَوْمَئِذٍ دُبُرَهُ ۔ یعنی جو کوئی ان میں سے اس دن پشت دکھائے۔ اس طرح اس چیز پر بھی بولا جاتا ہے جو اس کی جنس سے نہ ہو۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کے اس قوم میں: ﴿ وَمِنَ اللَّيْلِ فَسَبِّحْهُ وَإِدْبَارَ النُّجُومِ ﴿٤٩﴾. أي أخير الليل عقب غروبها اور رات میں سے اس کی پاکی بیان کر اور تاروں کے پیچھے۔ اور جیسے عتق التدبير بولا جاتا ہے۔ پس یہ لفظ دونوں معنوں میں مشترک ہو گا اور چونکہ مشترک لفظ کا ایک یا دو معنوں پر بلا دلیل محمول کرنا درست نہیں۔ اس لئے ناچار فیصلہ کا طریقہ یہ ہے کہ استعمال شرعی کی طرف رجوع کی جائے، اس کی وضاحت یوں ہو گی جیسا کہ بخاری میں ہے:
تُسَبِّحُونَ، وَتَحْمَدُونَ، وَتُكَبِّرُونَ، خَلْفَ كُلِّ صَلَاةٍ
’’ہر نماز کے بعد تینتیس تینتیس بار سبحان الله والحمدلله اور الله اكبر پڑھو۔‘‘ ([2])
یہاں " خَلْفَ كُلِّ صَلَاةٍ " میں خلف سے وہ زمانہ مراد ہے جو سلام کے بعد
|