’’اے اللہ! اپنے ذکر شکر اور اچھی عبادت پر میری مدد فرما۔‘‘ ([1])
یہ دونوں روایات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ فرض نماز کے بعد دعا کرنی چاہیے اور ہاتھ اٹھانے دعا کے آداب میں سے ہے۔ سو ہر دعا میں ہاتھ اٹھانے چاہئیں لیکن حق یہ ہے ۔۔۔ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرض کے بعد ایسا کرنا دائمی عمل نہ تھا۔ چنانچہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کی متفق علیہ حدیث:
كُنْتُ أَعْرِفُ انْقِضَاءَ صَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالتَّكْبِيرِ ([2])
’’میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اختتامِ نماز کو تکبیر (اللہ اکبر) سے پہچانا کرتا تھا۔‘‘
اس بات پر دلالت کرتی ہے۔ اس لئے حرمین شریفین " زادهما الله تشريفا و تعظيما " میں یہ معمول ہے کہ صرف امام کے سلام پھیرنے کے ساتھ ہی لوگ اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور امام کی دعا کا انتظار نہیں کرتے، حالانکہ امام دستور حال کے مطابق کچھ دیر ذکر اور دعا کے لئے بیٹھا رہتا ہے لہذا ’’ سفر السعادة ‘‘ میں ہے کہ: سلام کے بعد یہ مروج دعا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عادات منبع سعادات میں سے نہیں تھی اور اس باب میں کوئی حدیث ثابت نہیں اور یہ ایک بدعت حسنہ ہے۔ انتہی
ان کی مراد آج کل کی ھئیت کذائی کے دوام کی نفی ہے، ورنہ فرض نماز کے بعد دعا ثابت ہے جس کا بیان ہو چکا ہے اور شیخ عبدالحق دہلوی نے’’ شرح سفر السعادت ‘‘ میں فضل بن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث بروایت ترمذی جس سے نماز کے بعد دعا کا مستحب ہونا ثابت ہوتا ہے ذکر کر کے کہا: شائد مصنف کے نزدیک یہ حدیث پایہ ثبوت کو نہیں پہنچی اسی لئے کہا کہ ’’بدعت حسنہ‘‘ ہے اور امام جزری نے حصن حصین میں ترمذی اور نسائی کے حوالہ سے فرض نماز کے بعد دعا کو اوقات اجابت سے شمار کیا۔ ہاں اگر مابعد
|