عليه وسلم في الذهب وقال: وَلَكِنْ عَلَيْكُمْ بِالْفِضَّةِ فَالْعَبُوا بِهَا.
والثاني: ان النساء اخرج الي تزيين ليوغب فيهن ازواجهن ولذلك جرت العادة العرب والعجم جميعا بان يكون تزيينهن اكثر من تزيينهم، فوجب ان يرخص لهن اكثر مما يرخص لهم ولذلك قال صلي الله عليه وسلم: أُحِلَّ الذَّهَبُ وَالحَرِيرُ لِلإِنَاثِ مِنْ أُمَّتِي، وَحُرِّمَ عَلَى ذُكُورِهَا. ما في حجة الله البالغة بقدر الحاجة 2؍189،190)
لباس، زیبائش اور برتن وغیرہ:
جان لیجئے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عجمیوں کی عادات اور ان کا دنیا کی لذتوں سے اطمینان حاصل کرنے اور ان میں گہری دلچسپی لینے کے پیش نظر ان کے اصول و قواعد کو حرام اور اس کے علاوہ کو مکروہ قرار دیا ہے، اس لئے کہ ان کو معلوم تھا کہ، وہ آخرت کے بھولنے کا موجب ہے اور طلب دنیا کے حصول کی بہتات کو مستلزم ہے۔ سو ان اصول میں سے ایک فاخرانہ لباس ہے جو ان کے لئے باعثِ فخر اور ان کا مطمح نظر ہے اور اس کا باعث کئی ایک اسباب ہیں:
ان میں سے ایک قمیص اور شروال کو نیچے لٹکانا ہے، جس سے نہ پردہ اور نہ ہی تزیین مقصود ہوتی ہے جو کہ لباس کا اصل مطلوب ہے بلکہ اس سے مقصود فخر و مباہات اور اظہارِ ثروت وغیرہ ہوا کرتا ہے۔ اور تزئین و آرائش تو وہی اچھا لگتا ہے جو جسم کے مساوی ہو، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ: اللہ تعالیٰ روز قیامت اس شخص کی طرف نظرِ رحمت سے نہ دیکھے گا جو اپنی تہہ بند
|