مِنْكَ خَيْرًا قَطُّ (فتح الباری 1؍83، احمد 1؍298،359)
’’خاوند کے احسان کا انکار کرتی ہیں اگر تم پوری عمر ان کے ساتھ احسان کرو پھر ذرا ناگواری پیدا ہو جائے تو فورا کہے گی میں نے تم سے کبھی خیر نہیں دیکھی۔‘‘
اور اسی مال کی کثرت ہی کی خواہش مند رہی ہیں:
گل خورشید ٹیکا ہو قمرا کا ہو بازو کا
اور سونے کے زیور کی کم مقدار پر اکتفا نہیں کرتیں، بلکہ زیورات کی مختلف انواع و اقسام اور زیادہ سے زیادہ حصول کی خواہش کرتے ہوئے اسراف و اتراف میں گم ہو جاتی ہیں، مثلا جو زیور دو تین تولہ میں بن سکتا ہے اس پر خوش نہیں ہوتیں جبکہ پانچ چھ تولہ کا نہ بن جائے، حالانکہ زیور ایک تولہ کا ہو یا دو چار تولہ کا زیب و زیبائش میں مساوی ہے اس پر قناعت نہیں کرتیں، بلکہ متعدد الانواع زیورات سے زیب و زینت کی طلبگار رہتی ہیں۔ عورتوں کی اسی آرائشِ نقش و نگار کی بے تحاشا حرص کے پیش نظر پر تقی میر نے کہا ہے:
یار کی بالی کا جھمکا قدرت اللہ کی
عقد پروین کان میں زہرہ کی زیور ہو گیا
مزید فرمایا:
تیرے زیور کے نگین رات کو ایسے چمکے
ایک جگنی سے ہوئے سینکڑوں جگنو پیدا
بہرحال حد سے بڑھی ہوئی مال کی حرص و محبت آخرت سے غفلت و نسیان کا موجب ہے اور اسراف کی تعریف یہ ہے:
لتجاوز مالكم يكن في حقه ان يتجاوز
وہ اتنا حد سے بڑھا جتنا اسے بڑھنا روا نہ تھا
اور یہ عادت شرعا و عقلا مذموم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۂ فرقان میں عباد الرحمٰن
|