دنیا سے سوار کے توشہ کی مانند کافی ہو اور دولت مندوں کی ہم نشینی سے بچتی رہو۔‘‘
وجہ چہارم:
یہ وعیدِ نار ان لوگوں کے لئے ہے، جو ہمہ وقت دنیا کی حرص میں لذات و شہوات، فاخرانہ لباس اور بیش قیمت نفیس زیورات کے طلبگار، مال و دولت کے اسراف میں ایک دوسرے سے بڑھ کر مستغرق رہتے ہوئے دنیا کے لذائذ و ظرائف فراہم کرنے میں لگے رہتے ہیں، حلال و حرام کی تمیز کئے بغیر شب و روز اسی میں غلطاں و پیچاں رہتے ہیں، اور خود کو فقراء و مساکین سے اعلیٰ تصور کرتے ہوئے بڑے نازاں و فرحاں رہتے ہیں اور دنیا کی رغبتوں میں اللہ و رسول کو بھول جاتے ہیں۔ اس بناء پر اللہ تعالیٰ نے ایسے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرمایا اور ان کی امت کو سنایا:
﴿ وَلَا تَعْدُ عَيْنَاكَ عَنْهُمْ تُرِيدُ زِينَةَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ وَلَا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَهُ عَن ذِكْرِنَا وَاتَّبَعَ هَوَاهُ وَكَانَ أَمْرُهُ فُرُطًا ﴿٢٨﴾ ۔۔۔ (سورة الكهف: 28)
’’اور خبردار! تیری نگاہیں ان سے ہٹنے نہ پائیں کہ دنیوی زندگی کے ٹھاٹھ کے ارادے میں لگ جا، دیکھ اس شخص کا کہنا نہ ماننا جس کے دل کو ہم نے اپنے ذکر سے غافل کر دیا اور جو اپنی خواہش کے پیچھے پڑا ہوا ہے اور جس کا کام حد سے گزر چکا ہے۔‘‘
عورتیں خصوصا خواہشات دنیاوی پر مرمٹتی ہیں اور سونے کے خوشنما زیورات پر جان چھڑکتی ہیں اور بھاری بیش قیمت زیور پر فریفتہ ہو جاتی ہیں۔ اس کی حرص میں مبتلا، شب و روز اس میں ایسی حواس باختہ رہتی ہیں کہ احسان فراموش ہو جاتی ہیں جیسا کہ بخاری میں ہے:
وَيَكْفُرْنَ الْعَشِيرَ، وَيَكْفُرْنَ الْإِحْسَانَ. لَوْ أَحْسَنْتَ إِلَى إِحْدَاهُنَّ الدَّهْرَ كُلَّهُ، ثُمَّ رَأَتْ مِنْكَ شَيْئًا، قَالَتْ: مَا رَأَيْتُ
|