وکنیزان خود از زرپس برنمی بر آورداز زیور ایشان زکوٰۃ۔ (موطا مسویٰ؍207)
’’ مؤطا امام مالک میں ہے کہ: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اپنی بیٹیوں اور کنیزوں کو سونے کا زیور پہنایا کرتے تھے اور اس کی زکوٰۃ ادا نہ کرتے تھے۔‘‘
مالك عن نافع ان عبدالله بن عمر كان يحل بناته و جواريه الذهب ثم لا يخرج حليهن الزكوة. انتهي (مؤطا 1؍214، فوائد عبدالباقی)
’’ مالک، نافع سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر اپنی بیٹیوں اور بچیوں کو سونے کا زیور پہنایا کرتے تھے اور ان کے زیور کی زکاۃ نہ ادا کرتے تھے۔‘‘
وجہ سوم:
کہ یہ وعیدِ نار سونے کا زیور پہننے پر نہیں فرمائی، بلکہ یہ وعید نار ایسے لوگوں کے لئے ہے جو اسے بقصد ریا اور نمود و تکبر کے طور پر استعمال کریں اور جاہلیت کی سی زینت و سنگار کا اظہار کرنے والے ہوں، کیونکہ یہ ہر زمانہ کے اہل اسراف و اتراف اور اغنیاء کا شعار رہا ہے، سو جو ان امور خارجیہ سے متصف ہو کر سونے کا زیور پہنے اس کے لئے وعیدِ نار کا موجب ہے اس لئے کہ لباس حریر اور طلائی زیورات میں اکثر و بیشتر ریاء و تکبر پایا جاتا ہے، بخلاف چاندی کے زیور کے کہ یہ اغنیاء کے نزدیک عرفا نہایت بے قدر تصور کیا جاتا ہے، اسی تکبر و ریاء کے فاخرانہ لباس اور سونے کے زیور سے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
مَنْ لَبِسَ ثَوْبَ شُهْرَةٍ فِي الدُّنْيَا، أَلْبَسَهُ اللَّهُ ثَوْبَ مَذَلَّةٍ يَوْمَ القِيَامَةِ ([1])
’’ جو کوئی فاخرانہ لباس پہنتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کو روزِ قیامت ذلت و رسوائی کا لباس پہنائے گا۔‘‘
|