سو اس حدیث میں لباس شہرت اور ریاء و افتخار آخرت میں موجب لباس مذمت ہوا نہ کہ نفسِ لباس زینت۔ چنانچہ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
إِنَّ اللَّهَ جَمِيلٌ يُحِبُّ الْجَمَالَ ([1])
’’اللہ تعالیٰ خوبصورت ہے خوبصورتی کو پسند کرتا ہے۔‘‘
پھر فرمایا:
مَنْ تَرَكَ لُبْسَ ثَوْبِ جَمَالٍ تَوَاضُعًا وَهُوَ يَقْدِرُ عَلَيْهِ , وفي رواية تَوَاضُعًا كَسَاهُ اللهُ حُلَلَ الْكَرَامَةِ ([2])
’’جس شخص نے قدرت کے باوجود تواضع و انکساری کرتے ہوئے لباس جمال ترک کیا اللہ تعالیٰ اس کو حلہ کرامت پہنائے گا۔‘‘
شارع کا مقصود یہ ہے کہ فاخرانہ لباس اور بیش قیمت سونے کے زیورات جہاں دنیا میں محنت شاقہ اور موجبِ جانفشانی ہیں وہاں آخرت سے غفلت و نسیان کا سبب بھی ہیں اور بقدر حاجت براری، دارین میں راحت و اطمینان کا سبب ہو گا۔ اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
يَا بَنِي آدَمَ قَدْ أَنزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُوَارِي سَوْآتِكُمْ وَرِيشًا ۖ وَلِبَاسُ التَّقْوَىٰ ذَٰلِكَ خَيْرٌ ۔۔۔ الآية (سورة الاعراف: 26)
’’ اے آدم (علیہ السلام) کی اولاد ہم نے تمہارے لئے لباس پیدا کیا جو تمہاری شرم گاہوں کو چھپاتا ہے اور موجب زینت بھی ہے اور تقویٰ کا لباس، یہ اس سے بڑھ کر ہے۔‘‘
" خَيْرَ الْأُمُورِ أَوْسَطُهَا " کو اپنا ناہی زیب دیتا ہے، اور اسی اظہار و نمودوافتخار کے باعث امام عبدالرحمٰن نسائی رحمۃ اللہ علیہ نے " باب الْكَرَاهِيَةُ لِلنِّسَاءِ فِي إِظْهَارِ الْحُلِيِّ وَالذَّهَبِ " عورتوں کو سونا اور زیورات کے اظہار کی کراہت کا باب قائم کیا ہے اور اس
|