الدين السيوطي 8؍135 حاشيه
’’ابن شاہین اپنی ناسخ میں لکھتے ہیں کہ: ابتدائے امر میں مرد سونے وغیرہ کی انگوٹھیاں پہنا کرتے تھے اور لوگ ان سے خطرہ محسوس کرنے لگے ،پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں کے علاوہ عورتوں کے لئے حلال قرار دے دیا، سو جو چیز عورتوں کے لئے باعث خطرہ تھی ان کے لئے مباح کر دی گئی اور اباحت نے خطرہ کو منسوخ کر دیا اور امام نووی نے شرح مسلم میں اس پر مسلمانوں کا اجماع نقل کیا ہے۔( زهر الربي علي المجتبي)
والثاني: ان النساء احوج الي تزيين ليرغب فيهن ازواجهن ولذلك جرت عادة العرب والعجم جميعا بان يكون تزينهن اكثر من تزينيهم، فوجب ان يرخص لهن اكثر مما يرخص لهم و لذلك قال صلي الله عليه وسلم: أُحِلَّ الذَّهَبُ وَالْحَرِيرُ لِإِنَاثِ أُمَّتِي، وَحُرِّمَ عَلَى ذُكُورِهَا. انتهي ما في حجة الله البالغة للشيخ الشاه ولي الله المحدث الدهلوي (حجۃ اللہ مترجم 430 طبع کراچی نور محمد)
’’اور دوسری بات یہ کہ: خواتین زیب و زینت کی زیادہ ضرورت مند ہیں، تاکہ ان کے شوہر ان میں راغب ہوں، اسی لئے تمام عرب و عجم میں یہ بات عام ہے کہ عورتوں کی زیبائش مردوں کی نسبت زیادہ ہوتی ہے، سو ضروری تھا کہ ان کو مردوں کی نسبت زیادہ رخصت دی جائے۔ اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ سونا و ریشم میری امت کی خواتین کے لئے حلال اور مردوں کے لئے حرام قرار دئیے گئے ہیں۔ (حجۃ اللہ البالغہ)
در مؤطا امام مالک مذکور ست کہ عبداللہ بن عمر زیور طلائی میپو شانید دختران
|