Maktaba Wahhabi

262 - 386
جانے والا زیور) وغیرہ ہے اور اپنے ایک پاؤں کو دوسرے پر نہ ماریں، تاکہ ایک پازیب دوسرے سے مل کر نہ چھنچھنائے۔ اور اکثر مفسرین نے کہا ہے: کہ یہاں زینت سے مراد تین چیزیں ہیں: ایک: ’’رنگ ہے، جیسے سُرمہ لگانا، ابروں میں رنگ بھرنا، رُخساروں پر زعفران لگانا، ہاتھوں اور پاؤں پر مہندی کا لگانا ہے۔‘‘ دوسری: ’’زیور ہے، جیسے انگوٹھی، کنگن، پازیب، بازو بند، ہار، تاج، حمیل اور بالیاں ہیں۔‘‘ تیسری: ’’ لباس ہے۔‘‘ (تفسیر نیساپوری، کبیر) اور سورۂ رعد میں فرمانِ باری تعالیٰ ہے: وَمِمَّا يُوقِدُونَ عَلَيْهِ فِي النَّارِ ابْتِغَاءَ حِلْيَةٍ أَوْ مَتَاعٍ ۔۔۔ (سورة الرعد: 17) ’’و از انچہ میگداز ندش در آتش بطلب پیرایہ یا بطلب رخت خانہ۔‘‘ (فتح الرحمٰن) ’’اور جن چیزوں کو زیور یا دوسرے سامان بنانے کے لئے آگ میں تپاتے ہیں۔‘‘ اور تفسیر ابن عباس میں ہے: ابتغاء حلية، طلب حلية تلبسونها، يقول: مثل الحق مثل الذهب والفضة ينتفع بها، كذلك الحق ينتفع به صاحبه " ابْتِغَاءَ حِلْيَةٍ ، سے مراد، زیور کی خاطر جنہیں تم پہنتے ہو، کہتے ہیں: حق کی مثال اس سونے چاندی کی سی مثال ہے جس سے استفادہ کیا جائے ایسا ہی حق ہے جس سے صاحبِ حق فائدہ اٹھاتا ہے۔‘‘ اور تفسیر کبیر میں ہے: “ابْتِغَاءَ حِلْيَةٍ أَوْ مَتَاعٍ” اي بطلب اتخاذ حلية وهي ما يتزين
Flag Counter