3) عَنْ مَحْمُودِ بْنِ عِتْبَانَ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّهُ كَانَ يَؤُمُّ قَوْمَهُ وَهُوَ أَعْمَى... الحديث (رواہ البخاری والنسائی، نیل الاوطار 4؍171)
’’محمود بن الربیع سے مروی ہے کہ حضرت عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ اپنی قوم کی امامت کرواتے تھے اور وہ نابینا تھے۔‘‘
4) ابو اسحاق مروزی اور امام غزالی نے تو کہا ہے کہ نابینا کے پیچھے نماز پڑھنا افضل ہے کیونکہ کچھ نظر نہ آنے کے باعث اس کا خیال منتشر نہیں ہوتا اور نماز میں خوب دل لگتا ہے، جیسا کہ نیل الاوطار میں مذکور ہے:
(وقد صرح ابو اسحاق المروزى والغزالى بان امامة الأعمى افضل من امامة البصير لانه اكثر خشوعا عن البصير لما فى البصير من شغل القلب بالمبصرات) (نیل 4؍171، النہایہ 2؍394)
’’ابو اسحاق مروزی اور امام غزالی نے وضاحت کی ہے کہ نابینا شخص کی امامت بینا سے افضل ہے کیونکہ وہ بصیر سے زیادہ خشوع والا ہوتا ہے بسبب اس کے کہ بینا کا دل چیزوں کے دیکھنے میں مشغول نہیں ہوتا۔‘‘
فقہ حنفی سے دلیل:
اور فقہ حنفی میں بھی حدیث کے موافق روایات منقول ہیں جیسا کہ اشعۃ اللمعات میں ہے:
و در روایات فقہیہ در مذہب مانیز آمدہ است کہ اگر اعمی مقتدا قومی باشد جائز است امامت وے و بعض گفتہ اندکہ اعلم باشد پس وے اولی است۔ کذا فی شرح الکنز نقلا عن المبسوط، وھم چنیں ست در کتاب اشباہ و نظائر: 2؍156، انتھی۔
’’ہمارے مذہب کی فقہی روایات سے منقول ہے کہ اگر نابینا امام
|