ہو تو جائز ہے۔ اور بعض کہتے ہیں اگر وہ زیادہ صاحب علم ہو تو امامت میں اولی و مقدم ہے۔ شرح الکنز (حاشیہ 32) بحوالہ المبسوط۔ اس طرح اور کتابوں میں بھی اس کے اشباہ و نظائر پائے جاتے ہیں۔‘‘
البتہ یہ حنفی مذہب میں مکروہ ہے۔ جیسا کہ ہدایہ میں ہے: (1؍124)
والأعمى لأنه لا يتوقى النجاسة۔
’’(اس لئے کہ) اندھا نجاست سے نہیں بچتا۔‘‘
اصحابِ بصیرت ذرا غور کریں کہ کیسی دلیل ہے۔ اول تو یہ قاعدہ کلیہ کہ ’’نجاست سے نہیں بچتا‘‘ مشاہدہ سے غلط ثابت ہوتا ہے کوئی شخص اسے ثابت نہیں کر سکتا۔ اگر مان بھی لیا جائے تو علت، نجاست سے بچنا ہے۔ اندھا بذاتہ علت نہیں۔ سو مطلقا یہ حکم لگانا کہ اندھے کے پیچھے نماز مکروہ ہے۔ کیونکر صحیح ہو گا۔ جس سے یہ عقیدۂ فاسد عوام میں راسخ ہو گیا کہ اندھا ہونا خود ایسا عیب ہے جس سے نماز مکروہ ہوتی ہے بلکہ یہ حکم لگانا چاہیے کہ: جو نجاست سے نہ بچے خواہ اندھا ہو خواہ نابینا ہو اس کے پیچھے نماز مکروہ ہوتی ہے۔ ([1])
|