Maktaba Wahhabi

92 - 202
گیاہے۔ اس کو ہم کہتے ہیں (Diplomacy)بات کرنے کا فن۔ جب باپ خود کہہ رہا ہے کہ جاکر کہہ دو کہ ابوگھر پر نہیں ہیں تو بچے کا تجربہ بھی اس کو یہی سکھائے گا کہ جب ابو نے یہ کہہ کر جان چھڑا لی ہے تو میں بھی جھوٹ بول کر اپنی جان چھڑا لیتا ہوں تو دیکھئے۔ بچہ کس طرح اپنے ماحول اور والدین سے جھوٹ بولنا سیکھ رہا ہے۔ ہمارے سلف صالحین اپنے بچوں کو سچ بولنے کا عادی بنایا کرتے تھے اور اس سلسلے میں اُن پر کڑی نظر رکھتے تھے۔ اس سلسلے میں ایک واقعہ بڑا اہم ہے۔ حضر ت شیخ عبدالقادر جیلانی ؒکہتے ہیں کہ میں بچپن میں تمام معاملات میں سچ بولا کرتا تھا۔ میں علم حاصل کرنے کے ارادہ سے مکہ سے بغداد کے لیے نکلا۔ میری والدہ نے مجھے اخراجات کے لیے چالیس دینار دے دیئے او رمجھ سے وعدہ لے لیا میں ہمیشہ سچ بولوں گا۔ جب ہم ہمدان پہنچے تو چوروں کی ایک جماعت نے ہم پر حملہ کردیا او رقافلے والوں کو روک لیا۔ان چوروں میں سے ایک چور میرے پاس آیا کہنے لگا تمہارے پاس کیا چیز ہے؟ میں نے کہا 40 دینار وہ سمجھا میں مذاق کررہا ہوں وہ مجھے چھوڑ کر آگے بڑھ گیا۔ دوسرے آدمی نے کہا کہ تمہارے پاس کیا ہے؟ میں نے کہا 40 دینار۔ وہ مجھے پکڑ کر سردار کے پاس لے گیا۔ اب سردار نے بھی یہی پوچھا کہ تمہارے پاس کیا ہے؟ میں نے اس کو بھی کہا 40 دینار۔ سردار نے مجھ سے پوچھا کہ تم کو سچ بولنے پر کس چیز نے مجبو رکیا؟ میں نے کہا میں نے اپنی والدہ سے سچ بولنے کا وعدہ کیا تھا۔ مجھے ڈر تھا کہ میں اس وعدے کی خلاف ورزی نہ کردوں ۔ یہ سن کر چوروں کے سردار پر خوف طاری ہوگیا او روہ چلّانے لگ گیا اس نے اپنے کپڑے پھاڑ لیے اورکہا کہ تم اپنی والدہ سے کئے ہوئے وعدے کو توڑنا نہیں چاہتے تھے او رمیں اللہ سے کئے ہوئے وعدے کو توڑ رہا ہوں ۔پھر اس نے قافلے سے لوٹا ہوا مال واپس کرادیا او رکہا کہ میں تمہارے ہاتھ پر اللہ سے توبہ کرتا ہوں ۔ اس کے ساتھیوں نے کہا کہ چوری کرنے اور ڈاکے ڈالنے میں آپ ہمارے سردار تھے اور توبہ کرنے میں بھی آپ ہمارے سردار ہیں ۔ اس سچ بولنے کی برکت سے تمام
Flag Counter