Maktaba Wahhabi

90 - 202
چوری کا ارادہ کیا تو پھر یہی یاد آیا کسی اور بُرائی کا خیال آیا تو پھر یہی یاد آیا۔[1] لہٰذا ہوا یہ کہ آہستہ آہستہ تمام بُرائیوں سے بچ گیا۔ تو جھوٹ بولنا تمام بُرائیوں کی جڑ ہے۔ لہٰذا بچے پر خاص طور پر محنت کریں کہ بچے جھوٹ بولنے والے نہ ہوں ۔ جھوٹ بولنا ویسے بھی منافق کی چار نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ جھوٹ سے بچانے کے لیے ہمیں اُس کو بتانا چاہیے کہ جو شخص جھوٹ کا عادی بن جاتا ہے وہ اللہ کے ہاں جھوٹوں میں لکھ دیا جاتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ’’تم جھوٹ سے بچو کیونکہ جھوٹ بُرائیوں کی طرف لے جاتا ہے او ربُرائیاں آگ کی طرف لے جاتی ہیں او رانسان ہمیشہ جھوٹ بولتا رہتا ہے او رجھوٹ بولنے کی کوشش کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ کے ہاں کذاب لکھ دیا جاتا ہے۔ ‘‘[2] اس کا مطلب ہے جو شخص جھوٹ بول رہا ہوتا ہے ایک وہ جھوٹا ، دوسرا بددیانت بھی ہوجاتا ہے۔ وہ اپنے نفس کے ساتھ امانت دار نہیں رہتا۔ وہ اپنے ضمیر کے ساتھ سچا نہیں رہتا۔ یہی وہ بات ہے جو قرآن میں آتی ہے۔ ’’اللہ جانتا ہے کہ تم اپنے نفسوں سے خیانت کرو گے۔‘‘ (البقرۃ : 87) اس آیت کا پس منظر یہ ہے کہ جب صحابہ کو معلوم نہ تھا کہ رمضان میں رات کو بیویوں سے تعلقات قائم کرنے کی اجازت ہے کہ نہیں ؟ تو کچھ لوگوں نے جن میں حضرت عمر بھی شامل تھے ، راتوں کوتعلقات قائم کرلیے اُس وقت یہ آیت اتری۔ تو یہ اپنے نفس سے بھی خیانت ہوتی ہے۔ انسان اپنے اندر مجرم بن جاتا ہے جب انسان اپنے اندر جھوٹ بول رہا ہوتا ہے۔بہرحال جب ہمیں جھوٹ کی بُرائی کا معلوم ہوگیا تو بچوں کو بھی یہ بات سمجھانی ہے کہ انہوں نے جھوٹ نہیں بولنا۔والدین او ر اساتذہ بچوں کو
Flag Counter