کے لطیفے اگر ہو رہے ہیں تو جھوٹ بولنے کی تربیت تو گھر سے ہی مل رہی ہے ،تقلید پرستی بچے کی زندگی کا بہت بڑا حصہ ہے۔ ہم قرآن میں بار بار پڑھتے ہیں کہ لوگ جب انبیاء کاکفر کرتے تھے تو آباء پرستی اس کی بڑی وجہ بنتی تھی۔
’’ہم اس پر عمل کریں گے جس ہرہم نے اپنے ماں باپ کو پایا۔‘‘ (البقرۃ: 170)
جو بچوں کو بنانا چاہتی ہیں خود ویسی بن جائیں ۔ ویسا نمونہ ان کو پیش کریں ۔ ان کے سامنے قول و فعل میں تضاد نہ ہو۔کیونکہ قول و فعل کے تضاد کے ساتھ اول تو بچہ سیکھتا نہیں ہے۔ دوسری بات اسکی شخصیت بکھر جاتی ہے ۔
آپ بچےکو زبان سے بھی رہنمائی دے رہی ہوتی ہیں اور عمل سے بھی۔تو یہ تقلید اور رہنمائی بیک وقت اکٹھے چل رہے ہوتے ہیں ۔ جو بچے بچپن میں رہنمائی حاصل نہیں کرتے یا جن کے ماں باپ بچپن میں فوت ہو جاتے ہیں ایسے بچے خود فیصلہ کرتے ہیں ۔بچپن سے ہی انہیں خود فیصلہ کرنے کی عادت پڑ جاتی ہے۔کیونکہ انہیں رہنمائی نہیں مل رہی ہوتی۔ وہ شخصیت ان کو نہیں مل رہی ہوتی جس کی تقلید کریں ۔کیونکہ وہ کسی اور شخصیت کو تقلید کے قابل نہیں سمجھتے۔ جب وہ خود فیصلے کرتے ہیں تو بڑے فعال ہو جاتے ہیں ،جرأت مند ہو تے ہیں پر اعتماد ہوتے ہیں ۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ چونکہ ان کو رہنمائی نہیں ملی ہوتی انہوں نے خود فیصلے کیے ہوتے ہیں تو جارحیت پسند بھی ہوتے ہیں ۔اس لیے یہ رہنمائی بہت ضروری ہے۔ان کو کلیتاً چھوڑ دینا درست نہیں ۔بہت سی مائیں کہتی ہیں کوئی بات نہیں بچہ بڑا ہو کر خود ہی سیکھ لےگا۔خود کچھ بھی نہیں ہوتا ۔خود خرابی بھی نہیں ہوتی اوراچھائی لازماًمحنت کر کےہی ہوتی ہے۔بچہ بھی اپنے طور پر نہیں اپنے ماحول سے سیکھے گا۔ہم اس کو نظر انداز کر دیں تو علیحدہ بات ہے۔اس صورت میں ان کی اچھی صلاحیتیں بھی برا رخ اختیار کرلیتیں ہیں ۔ہر بچے میں صلاحیتیں ہوتی ہیں ۔یہ صلاحیتیں مختلف ہوسکتی ہیں ۔اللہ نے ہر ایک کو ایک جیسی صلاحیتیں نہیں دیں ۔کیونکہ ہربچہ ایک منفرد شخصیت کا مالک ہوتا ہے ۔لیکن ان صلاحیتیوں کو نکھارنا ہوتا ہے۔ رہنمائی کرنی پڑتی
|