نیزوں اور بھالوں کے ساتھ مسجد نبوی میں کھیل رہے تھے اور یہ 7 ہجری کا واقعہ ہے۔[1]
مولانا مودودی رحمہ اللہ اپنی ایک کتاب میں کہتے ہیں :
’’عورت کے مرد کی جانب دیکھنے اور مرد کے عورت کی جانب دیکھنے میں ایک باریک سا فرق ہے۔ مرد کی طبیعت میں جرأت اور اقدام ہے چنانچہ وہ کسی چیز کو پسند کر لیتا ہے تواس کو حاصل کرنے اور اس تک پہنچنے کی پوری کوشش کرتا ہے۔ جبکہ عورت کی فطرت میں حیا ہے اور عورت جب تک اپنی فطرت پر قائم رہتی ہے تو اس میں مرد جیسی بے باکی اور جرأت نہیں ہوتی۔ جس کی وجہ سے وہ اپنی محبوب چیز کی طرف آگے نہیں بڑھتی بلکہ جھجک کر پیچھے ہٹتی ہے۔ اسی جھجک کی وجہ سے شریعت نے عورت کے اجنبی مرد کی طرف دیکھنے میں وہ سختی اختیار نہیں کی جو مرد کے اجنبی عورت کی طرف دیکھنے میں کی ہے۔ اس تمام تفصیل کا خلاصہ یہ ہے کہ عورت اجنبی مرد کو 2شرطوں کےساتھ دیکھ سکتی ہے۔
1:… دیکھنے کی وجہ سے کسی فتنہ کا اندیشہ نہ ہو، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے دیکھا تو یہ ایک جنگی کھیل تھا۔
2:… ایک ہی مجلس میں آمنے سامنے نہ بیٹھے۔
4سال کے بعد بچے کو ستر ڈھانپنے کا عادی بنائیں ۔
کچھ ایسے حالات ہوتے ہیں جب دیکھنا مجبوری ہوتا ہے۔
1:… شہادت، گواہی، قانونی فیصلے کے لیے دیکھنا۔
2:… علاج کی غرض سے
حضرت ام سلمیٰ رضی اللہ عنہا سےروایت ہے کہ ام سلمیٰ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پچھنے لگوانے کی اجازت طلب کی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو طیبہ کو پچھنے لگانے کا حکم دیا۔ لیکن اس کےلیے کچھ شرائط ہیں :
|