حضرت امیر المومنین عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے بحرین والوں کو لکھا کہ تم جس جگہ بھی ہو جمعہ ادا کیا کرو۔ ابن خزیمہ نے اس کو صحیح کہا، اور یہ بستیوں اور شہروں کو شامل ہے۔ اور بیہقی نے لیث بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ: ([1])
حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں اہل مصر اور مضافات کے رہنے والے ان کے حکم سے جمعہ ادا کیا کرتے تھے اور ان میں ایک جماعت صحابہ کی بھی موجود تھی۔ اور امام عبدالرزاق نے صحیح سند کے ساتھ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ:
وہ مکہ اور مدینہ کے مابین گاؤں والوں کو جمعہ پڑھتے دیکھتے تھے اور معیوب نہ جانتے تھے۔ اور صحابہ کے اختلاف کے وقت مرفوع کی جانب رجوع کرنا ہی لازمی ہے اور اس باب میں اور بھی روایات ہیں۔
سو جب بستیوں میں جمعہ پڑحنا ثابت ہو گیا تو امام اعظم ([2]) (یعنی بادشاہ) کی شرط بے اصل ہو گئی، کیونکہ بادشاہ بستیوں میں نہیں رہا کرتا اور علی ھذا القیاس مسجد بھی شرط نہیں۔ اور امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا بھی یہی قول ہے۔ اور بقیہ علماء بھی یہی فرماتے ہیں، کیونکہ اس کی کوئی دلیل نہیں ہے اور یہی قول قوی ہے۔
اور اہلِ تواریخ کے نزدیک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے میدان میں جمعہ پڑھنا مروی ہے۔ ابن سعد نے بھی اس کو روایت کیا۔ اور اگر اس کی صحت کو تسلیم کر لیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا صرف مسجد میں جمعہ ادا کرنا مسجد کے شرط ہونے کی دلیل نہیں ہو سکتا۔ واللہ اعلم
|