ہاں! اس میں شک نہیں کہ علمائے متقدمین و متاخرین میں سے ایک گروہ کا یہ مسلک ہے، دوزخ کی ابدیت، جنت کی ابدیت کی طرح شارع کا منصوص علیہ نہیں ہے۔ اس لئے کہ جنت کے بارے میں " إِلَّا مَا شَاءَ رَبُّكَ " کے بعد " عَطَاءً غَيْرَ مَجْذُوذٍ، اي غير منقطع " یعنی بخشش بے انتہا ہے، فرمایا ہے، نیز ارشاد باری ہے:
﴿ إِنَّ هَـٰذَا لَرِزْقُنَا مَا لَهُ مِن نَّفَادٍ ﴿٥٤﴾ ۔۔۔ (سورة ص: 54)
"بےشک یہ ہمارا دیا ہوا رزق ہو گا جو کبھی ختم نہ ہو گا۔‘‘
اور دوزخ کے بارے میں استثناء مذکور کے بعد فرمایا: " إِنَّ رَبَّكَ فَعَّالٌ لِّمَا يُرِيدُ ﴿١٠٧﴾" بےشک تیرا رب جو چاہے وہ کر گزرتا ہے۔ اور دوام سے متعلق کوئی مفید تعبیر ارشاد نہیں فرمائی۔ سو دونوں کی ابدیت میں فرق ہو گا۔
اور بعض شرعی و عقلی دلائل دوزخ کے کسی نہ کسی دن ختم ہونے کے متقاضی ہیں اور اس سے دوزخیوں کا عذاب ختم ہونا بھی لازم آتا ہے۔ باوجودیکہ اس سے خلود في النار بھی مترشح ہے۔ بایں معنی کہ جب تک دوزخ باقی ہے ہمیشہ اس میں رہیں گے اور اس سے نکل نہ سکیں گے اور جب دوزخ فنا ہو جائے گی، ان کا عذاب بھی مخلد نہ رہے گا۔ گویہ زمانہ دراز اور لمبی مدت کے بعد ہی ہو، اور بلاشک یہ فرق نہایت نازک ہے، اسی لئے حافظ ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب " حادي الارواح الي بلاد الافراح " کے سڑسٹھویں باب میں بہشت اور دوزخ کی ابدیت میں مبسوط کلام کرنے کے بعد اسی طرف میلان کیا اور کہا کہ: حکمت الٰہی میں یہ بات نہیں کہ شر اور بدی ہمیشہ رہے جس کی کوئی انتہا اور انجام نہ ہو، تو وہ خیر کے بالکل مساوی ہو جائے گی، انتہی۔
اور عجب نہیں کہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ کے استاد حضرت ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ بھی شیخ اکبر محی الدین ابن عربی کی طرح اسی طرف گئے ہوں، لیکن محرر سطور نے اس مسئلہ میں ان سے اب تک کوئی نص صریح نہیں پائی۔
ہاں ابن القیم نے کتاب مذکور میں دونوں کے دوام میں شرعا و عقلا پچیس وجوہ سے فرق کیا ہے اور کہا: شائد تجھے یہ تحقیق کسی کتاب میں نہ ملے۔ اور اس کے ضمن میں
|