وَسَلَّمَ: تَصَدَّقْنَ، وَلَوْ مِنْ حُلِيِّكُنَّ ، فَجَعَلَتْ الْمَرْأَةُ تُلْقِي خُرْصَهَا وَسِخَابَهَا (فتح الباری 3؍312)
’’زکاۃ میں اسباب لینے کا باب۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (عورتوں سے) فرمایا: صدقہ دو، اگرچہ تمہارے زیور ہی کیوں نہ ہوں، چنانچہ عورتیں اپنی اپنی بالیاں اور اپنے اپنے ہار ڈالتی تھیں۔‘‘
حلي یعنی زیور، خواہ وہ سونے کا ہو یا چاندی کا عموم پایا جاتا ہے، جیسا کہ فرمانِ الٰہی ہے:
مِنْ حُلِيِّهِمْ عِجْلًا جَسَدًا ۔۔۔ الآية (سورة الاعراف: 148)
’’اپنے زیور سے بچھڑا بنایا۔‘‘
اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو فرمایا: صدقہ یعنی زکاۃ ادا کرو خواہ اپنے زیوروں سے دو۔ اور زیور دونوں اقسام سے ہوتا ہے۔ قاموس میں ہے:
الخرص بالضم و بكسر، حلقة الذهب والفضه او حلقة القرط والحلقة الصغيرة۔
’’خِرص ضمہ و کسرہ کے ساتھ، سونے اور چاندی کا کڑا (کنگن اور چوڑی) یا بالی کے کڑے اور چھوٹے کڑے (چھلے) کو کہتے ہیں۔‘‘
الصراح میں یوں ہے: خرص: بضم و کسر، حلقہ زر و نقرہ۔
سخاب: بکسر سین مہملہ و خاء معجمہ، قلادہ، فارسی میں: گردن بند یعنی ہر عرف میں جو زیور گلے میں پہنا جاتا ہے۔ پس سخاب بھی عام ہے خواہ سونے کا ہو یا چاندی کا، جو کہ ہر شخص حسب مقدر و بغرض زینت بنواتا ہے۔
قرط: مضہ کے ساتھ، گوشوارہ، (کان کی بالی) بھی عام ہے خواہ چاندی کا ہو یا سونے کا، مُرصع جڑاؤ ہو یا نہ ہو۔
اور امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب اللباس میں ذکر کیا ہے:
بَابُ الخَاتَمِ لِلنِّسَاءِ وَكَانَ عَلَى عَائِشَةَ، خَوَاتِيمُ
|