" وَمَا خَلَقَ الذَّكَرَ وَالْأُنثَىٰ ﴿٣﴾" جمہور صحابہ کے نزدیک متواتر ہے اور یہی قراءت متواترہ اسی طرح ہر قرآن کریم اور مصحفِ عثمانی میں مذکور ہے اور یہ قراءت متواترہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور ابوالدرداء رضی اللہ عنہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ پہنچی، جیسا کہ فتح الباری 8؍707 وغیرہ میں یہ قصہ مذکور ہے۔
سو اس حدیث نہی کے لاعلمی کے سبب اگر حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ نے فجر کی سنت کبھی مسجد میں جماعت کے قائم ہونے کے وقت پڑھی ہو تو وہ معذور ٹھہریں گے اور جو صحیح حدیث چھ سات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے منقول ہے اور آیت کریمہ " وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا " (الحشر: 7) کے موجب، ہمارا سنتیں پڑھنا حجت نہیں ہو سکتا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا عمل:
تو امت پر رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کا قول و فعل اور تقریر واجب الاتباع ہے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بابت پیچھے گزر چکا ہے کہ:
وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ «أَنَّهُ كَانَ إِذَا رَأَى رَجُلًا يُصَلِّي وَهُوَ يَسْمَعُ الْإِقَامَةَ ضَرَبَهُ ، و عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّهُ أَبْصَرَ رَجُلًا يُصَلِّي الرَّكْعَتَيْنِ وَالْمُؤَذِّنُ يُقِيمُ، فَحَصَبَهُ (محلی ،ابن حزم 3-109)
’’انہوں نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ اقامت سننے کے بعد نماز پڑھ رہا ہے تو اسے مارا اور تعزیر دی۔ اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو دیکھا کہ مؤذن کے اقامت کہنے کے بعد دو رکعتیں پڑھ رہا ہے تو اسے کنکر مارا۔‘‘ (سنن کبریٰ بیہقی 2؍483)
احناف کا نہی کی تاویل اور ان کا رد:
اور بعض علمائے احناف نہی کی حدیث کا یوں جواب دیتے ہیں کہ: اس شخص نے مسجد کے کنارہ کی اوٹ میں (سنت) نہیں پڑھی تھی اس لئے زجر و انکار فرمایا وہ اگر
|