فكرهه الشافعي و احمد عملا بتلك الاحاديث. وقالت المالكية لا يبتدء الصلوة بعد الاقامة لا فرضا ولا نفلا لحديث “إِذَا أُقِيمَتِ الصَّلَاةُ فَلَا صَلَاةَ إِلَّا الْمَكْتُوبَةَ” واذا اقيمت في الصلاة قطع ان خشي فوت ركعة والا اتم و استدل بعموم الحديث من قال بقطع النافلة، اذا اقيمت الفريضة، وبه قال ابو حامد وغيره. (مغنی 2؍119)
’’جان لیجئے کہ اقامت کے وقت فجر کی سنتوں کی ادائیگی میں اختلاف ہے: امام شافعی اور امام احمد نے انہیں احادیث پر عمل کرتے ہوئے اسے مکروہ جانا ہے اور مالکیہ کہتے ہیں کہ حدیث " إِذَا أُقِيمَتِ الصَّلَاةُ.... الخ " پر عمل کرتے ہوئے اقامت کے بعد نہ فرض اور نہ ہی نفل نماز کی ابتداء کرے اور جب اقامت کہہ دی جائے اور وہ نماز میں ہو اور اسے رکعت کے ضائع ہو جانے کا خدشہ ہو تو نماز توڑ ڈالے، وگرنہ پورا کرے اور جس نے یہ کہا کہ نفل توڑ ڈالے اس نے عمومِ حدیث " إِذَا أُقِيمَتِ الصَّلَاةُ.... الخ" سے استدلال کیا ہے، یہی قول ابو حامد وغیرہ کا ہے۔‘‘
وخص اخرون النهي بمن ينشا النافلة عملا لقوله “وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ” ثم زاد مسلم بن خالد عن عمرو بن دينار في قوله صلي الله عليه وسلم “إِذَا أُقِيمَتِ الصَّلَاةُ فَلَا صَلَاةَ إِلَّا الْمَكْتُوبَةَ” قيل يا رسول الله صلي الله عليه وسلم ولا ركعتي الفجر؟ قال ولا ركعتي الفجر، اخرجه ابن عدي و سنده حسن. (کامل 1؍291-310، 2؍678)
’’اور دوسروں نے آیت ’’اور اپنے اعمال کو ضائع نہ کرو‘‘سے
|