نے نادم ہو کر کہا کہ: اے زید میں تجھ سے کلام کرتا ہوں میرا قصور معاف کر دو۔ اب عمرو کو طلاق ہو گی یا نہیں؟ بینوا تواجروا۔
جواب دوم:
فوت ہونے کے بعد کلام کرنے سے قسم نہیں ٹوٹتی اور طلاق واقع نہیں ہوتی۔ کنز ([1]) میں لکھا ہے کہ: کسی نے قسم کھائی کہ اگر میں تجھے ماروں یا کپڑا پہناؤں یا تجھ سے کلام کروں یا تیرے پاس آؤں تو یہ سب قسمیں زندگی کے ساتھ مقید ہوں گی۔ اگر زندہ سے یہ کام کر لے گا تو قسم ٹوٹے گی، مردہ سے کرے گا تو نہ ٹوٹے گی۔
ھدایہ ([2]) میں ہے: جس نے کہا اگر میں تجھ کو ماروں تو میرا غلام آزاد، اگر زندہ کو مارے گا تو غلام آزاد ہو جائے گا۔ مرنے کے بعد مارے گا تو آزاد نہیں ہو گا۔
مستخلص ([3]) میں ہے: کہ اگر کسی نے کہا: میں تم سے کلام کروں تو میرا غلام آزاد، پھر اس کے مرنے کے بعد اس سے کلام کی تو قسم نہ ٹوٹے گی اور غلام آزاد نہ ہو گا۔
اور پھر ہدایہ ([4]) میں ہے: کہ کلام سے مقصود بات سمجھانا ہے اور موت اس کے منافی ہے، مردہ نہ سنتا ہے، نہ سمجھتا ہے۔ اور مستخلص میں ہے کہ: مارنے سے مقصود بدن کو درد پہنچانا ہے اور مردہ اس قابل نہیں، پھر قبر کے عذاب کا اعتراض کر کے اس کا جواب دیا ہے اور جو چاہے فقہ کی ہر کتاب میں کتاب الایمان، باب الیمین فی القتل والضرب وغیرہ سے مراجعت کر سکتا ہے۔
|