اتار ڈالے۔ نماز سے فراغت پا کر آپ نے پوچھا تم نے اپنے جوتے کیوں اتارے؟ عرض کیا آپ کو دیکھ کر! آپ نے فرمایا: مجھے جبرائیل علیہ السلام نے آ کر خبر دی کہ آپ کے جوتوں میں ناپاکی لگی ہے میں نے اس لئے اتارے تھے۔ جب تم میں سے کوئی مسجد میں آئے تو جوتوں کو دیکھ لے۔ اگر ان میں نجاست نظر آئے تو ان کو زمین سے رگڑ کر صاف کر لے اور انہیں میں نماز پڑھ لے۔ اس مضمون کی اور بھی احادیث وارد ہیں۔ ([1])
منیہ ([2]) کی شرح کبیر میں ہے کہ: جوتوں میں نماز پڑھنا ننگے پاؤں نماز پڑھنے سے یہود کی مخالفت کے سبب زیادہ فضیلت رکھتا ہے۔ اور حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی حدیث کے آخر میں ناپاک جوتوں کو پاک کرنے کا بیان بھی ہو چکا ہے۔ بعض لوگ دوستانہ نصیحت کرتے ہیں کہ یہ امور اگرچہ سنت تو ہیں، مگر لوگ ان باتوں سے چڑتے اور شور کرتے ہیں اس لئے ان کا نہ کرنا بہتر ہے۔
اے مہربانوں، تم مہربانی کرو! چڑنا اور شور کرنا چھوڑ دو، چڑنا تو کوئی فرض، واجب، سنت اور مستحب نہیں ہے، جس کے چھوڑنے میں تمہارا کوئی نقصان ہوتا ہو، تمہیں بھی یہی کمزور پہلو نظر آتا ہے۔ شور کرنے والوں کو کیوں نصیحت نہیں کرتے کہ شور نہ کیا کریں۔امرِ شرع سے چڑنا اور شور کرنا ایمان سے بعید ہے۔ خدا اور رسول پر ایمان لائے ہو یا رواجِ ملک پر؟ تمہاری مصلحتوں نے تو ملک سے دین کا نام بھی کھو دیا۔
سوال دوم:
زید ایک بڑا کامل ولی اللہ ہے، عمرو نے قسم کھائی کہ اگر میں زید سے کلام کروں تو میری بیوی کو طلاق۔ زید کے فوت ہو جانے کے بعد عمرو
|