خلاصہ یہ ہے کہ: ایک طالب علم کے پاس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث میں سے ایک حدیث کا ذکر آیا اس نے کہا، واہ کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سب احادیث سچی ہوا کرتی ہیں اور ان پر عمل کیا جائے گا؟ مفتی نے جواب دیا کہ وہ کافر ہو گیا۔ اول: تو استفہام انکاری کے سبب سے اور دوسرا: اس کلام میں پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی جناب میں عیب لگانے سے، پہلے کفر اعتقادی میں تو تجدید ایمان کا حکم کیا جائے قتل نہ کیا جائے اور دوسرے کفر سے اس کا زندیق ہونا ثابت ہوتا ہے۔ گرفتاری کے بعد باتفاق محدثین اس کی توبہ قبول نہیں، اس کی سزا قتل ہے۔ البتہ گرفتاری سے قبل توبہ میں اختلاف ہے۔ حضرت ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اس کی توبہ قبول کی جائے قتل نہ کیا جائے اور باقی ائمہ کے نزدیک اس کی توبہ قبول نہیں، حدا قتل کیا جائے۔
خدا کے بندو غور کرو! اپنے بزرگوں کو دیکھو! اتنی سوء ادبی پر کیسی بڑی سخت سزا تجویز فرمائی ہے، تم کس خواب غفلت میں سوئے ہو۔ کس ورطہ خطرناک میں پڑے ہو، سنت کو برا جاننے پر، کس مذہب کی کس کتاب میں تم نے وعدہ اخروی لکھا پایا ہے۔ برا نہ جاننے میں تمہارا کیا نقصان ہوتا ہے، ملا لوگ پیٹ کے مارے تمہیں طیش میں لا کر اور گرم کر کے کچھ کما لیتے ہیں، کیا خوب حلال کمائی ہے۔ حدیث پر عمل کرنے سے عداوت کرتے ہیں توبہ کرواتے ہیں، اگر عامل بالحدیث نے توبہ کر لی تو ان کا بھائی بنا، نہ کی تو دشمن رہا، موردِ ہزار ہا ہزار طعن و تشنیع و بہتان ٹھہرا۔ یہ عداوت دراصل رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے۔ اگر عامل بالحدیث سے ہوتی تو ترکِ عمل کے بعد زائل نہ ہوتی اور اس کا سبب شہوتِ بطن کی راہ سے اغوائے شیطانی ہے نہ کہ حمایت اسلامی، اگر حمایتِ
|