قال في حسب المفتين، قول مالك رحمه الله تعاليٰ معمول به في هذه المسئلة وهو احد قولي الشافعي و لو افتي الحنفي بذلك يجوز فتواه لان عمر قضي هكذا في الذي استهوته الجن بالمدينة وكفي به اماما ولانه منع حقها بالغيبة فيفرق القاضي بينهما بمضي هذه المدة اعتبارا با لايلاء في العدد و ملاعنة في السنة بالشبهين۔ انتهي كلامه۔ لو افتي به في موضع الضرورة ينبغي ان لا باس به، كذا في الطحطاوي و رد المختار و خزانة العلماء وغيرها۔ وان شئت التفصيل فلترجع الي الرسالة المسماة بمسائل اربع للاستاذ المحقق والحبر المدقق المشتهر في المشرقين و في المغربين مولانا السيد؍ محمد نذير حسين لا زالت فيوضاته هاطلة الي بقاء الملوين۔
’’حسب المفتین میں ہے کہ: امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا قول اس مسئلہ میں معمول بہ ہے اور یہی ایک قول امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا بھی ہے اور اگر حنفی اسی فتویٰ کو جاری کرے تو اس کا فتویٰ جائز ہو گا کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کے مطابق ہی اس شخص کے متعلق یہی فتویٰ دیا تھا جس کو جنوں نے مدینہ سے برگشتہ کر دیا تھا، اور ان کا امام ہونا کافی ہے اور اس لئے بھی کہ اس مرد کا غیاب عورت کے حقوق کی بجا آوری سے مانع ہے۔ سو قاضی تعداد میں ایلاء ([1]) اور لعان کی سنیت کا اعتبار کرتے
|