کر دی ہو۔ بس ولد الزنا سے متعلق بھی وہی اسلوب اختیار کرنا چاہیے جو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا نہ کہ اس کے برعکس رویہ اختیار کیا جائے۔ صحیح بخاری اور مسلم میں حضرت عبداللہ بن دینار سے مروی ہے کہ انہوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہ سے سنا وہ فرماتے تھے کہ:
بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بعثا، وَأَمَّرَ عَلَيْهِمْ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ، فَطَعَنَ بَعْضُ النَّاسِ فِي إِمْرَتِهِ، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «إِنْ تَطْعَنُوا فِي إِمْرَتِهِ، فَقَدْ كُنْتُمْ تَطْعَنُونَ فِي إِمْرَةِ أَبِيهِ مِنْ قَبْلُ، وَايْمُ اللَّهِ، إِنْ كَانَ لَخَلِيقًا لِلإِمْرَةِ، وَإِنْ كَانَ لَمِنْ أَحَبِّ النَّاسِ إِلَيَّ، وَإِنَّ هَذَا لَمِنْ أَحَبِّ النَّاسِ إِلَيَّ بَعْدَهُ ۔ (فتح الباری 7؍86)
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر بھیجا اور اسامہ بن زید کو اس پر امیر مقرر فرمایا بعض لوگوں نے ان کی سرداری پر طعن کیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور فرمایا: کہ اگر تم اس کی سرداری پر طعن کرتے ہو تو اس سے قبل اس کے باپ کی سرداری پر بھی طعن کر چکے ہو، اللہ کی قسم! وہ امارت کا مستحق تھا اور لوگوں میں میرے نزدیک بہت زیادہ محبوب تھا اور اس کے بعد یہ (حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ) لوگوں میں سب سے زیادہ میرے نزدیک محبوب ہے۔‘‘
سو جو لوگ ولد الزنا کی امامت کو مکروہ کہتے ہیں وہ لوگ اعانت علی الظلم کرتے ہیں اور اس پر ظلم کرتے ہیں اور لوگوں میں فاسد عقیدہ کی اشاعت کرتے ہیں۔ ([1])
كما لا يخفي علي من له ادني فهم۔ والله اعلم بالصواب۔ قد
|