Maktaba Wahhabi

70 - 386
تلاش و جستجو کے بعد بعض محققین نے ان میں سے 28-29 علماء کا پتہ چلایا ہے اور ان سے متعلق معلومات جمع کی ہیں۔ [1] ان میں وہ چار علماء جنہیں ایک ایک ربع تفویض کیا گیا تھا یہ ہیں: قاضی محمد حسین جونپوری (م 1080ھ) ملا محمد اکرم الاہوری (م 1116ھ) سید جلال الدین محمد مچھلی شہری اور شیخ وجیہ الدین گوپاموی (1083ھ)[2] فتاویٰ عالمگیری کو بعض خصوصیات کی وجہ سے بڑی اہمیت حاصل ہے۔ اس میں جو مسائل بیان کئے گئے ہیں وہ یا تو راجح اور مفتی بہ ہیں یا کتب ظاہر الروایۃ کے ہیں ایسے مسائل بہت کم درج کئے گئے ہیں جو شاذ اقوال پر مبنی ہیں۔ اختلاف اقوال کی صورت میں سیر حاصل بحث کے بعد صرف وہی قول ذکر کیا گیا ہے جو راجح ہے۔ جملہ مسائل پر بحث و تمحیص اور ان کی تشریح و توضیح میں کمالِ احتیاط اور ذہانت کا ثبوت دیا گیا ہے۔ مسائل کی تکرار اور متن میں حشو و زوائد سے پرہیز کیا گیا ہے اور چونکہ یہ علمائے فقہ کی ایک جماعت کی تگ و تاز علمی کا نتیجہ ہے اس لئے ضخامت کے باوجود ان اغلاط و اسقام اور نقائص و عیوب سے بڑی حد تک پاک ہے جو عام طور پر دوسری فقہی کتابوں میں نظر آتے ہیں اس کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں ہر مسئلہ کے ماخذ کا حوالہ دیا گیا ہے اور اس کی اصل عبارت نقل کی گئی ہے اس کے مآخذ و مصادر کی تعداد 130 سے بھی زیادہ ہے ان میں فقہ حنفی کی تمام اہم اور قابل ذکر کتابیں شامل ہیں ابواب کی تقسیم اور مضامین کی ترتیب ’’ہدایہ‘‘ کے طرز پر ہے جس کی وجہ سے تلاشِ مسائل میں کوئی دشواری نہیں ہوتی۔ فتاویٰ عالمگیری کی یہی وہ خصوصیات ہیں جن کی وجہ سے اسے تمام
Flag Counter