کی روشنی میں راجح قول کی تعیین اور کسی ایک مذہب کی سختی کے ساتھ پابندی کی بجائے اجتہاد اور آزادی فکر کی دعوت میں امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے ہم نوا ہیں۔ عصرِ حاضر میں انہیں ’’سلفی، اثری، انصار السنہ‘‘ یا ’’اہل حدیث‘‘ کہا جا سکتا ہے۔ انہوں نے تقلیدی فقہ کی بجائے فقہ حدیث (یا فقہ سنت) کی دعوت دی۔ ہندوستان میں نواب صدیق حسن خان رحمہ اللہ، (شیخ الکل) سید نذیر حسین اور ان کے تلامذہ، مصر میں احمد محمد شاکر، محبّ الدین خطیب، سید رشید رضا اور محمد حامد الفقی، شام میں طاہر الجزائری، جمال الدین القاسمی، محمد راغب، الطباخ اور محمد بہجۃ البطیار، عراق میں محمد بیجۃ الاثری، سعودی عرب میں عبدالرزاق حمزہ، محمد نصیف، عبدالرحمٰن المعلمی اور امام العصر ابن باز رحمہ اللہ وغیرہ، مراکش میں محمد العربی، تقی الدین الہلالی اور ان کے تلامذہ، الجزائر میں عبدالحمید بن بادیس، اور اس وقت اردن میں مقیم محمد ناصر الدین البانی رحمہ اللہ سلفی فکر کے اساطین میں شمار کئے جاتے ہیں۔ ان علماء کی کوششوں سے عصر حاضر میں سلفی رجحان کو بڑا فروغ ہوا اور اس کا اثر تمام مکاتب فکر پر پڑا ہے۔ اس کی نمایاں مثال یہ ہے اب مصر، شام، کویت اور سعودی عرب میں فقہی مسائل پر غور کرنے کے لئے کمیٹیاں بنی ہیں جو مختلف مکاتب فکر کے علماء پر مشتمل ہیں۔ وہاں مسائل پر غوروخوض کرتے وقت تمام ائمہ سلف کی آراء سے استفادہ کیا جاتا ہے اور دلائل کی روشنی میں راجح قول کے مطابق فتویٰ دیا جاتا ہے آج ہمیں کسی ایک مسلک کی تقلید کے بجائے مسائل کے حل کے لئے یہی طریقہ اختیار کرنا پڑے گا۔ [1]
|