Maktaba Wahhabi

364 - 386
میں کہتا ہوں! احادیث سے جو معلوم ہوتا ہے وہ یہ کہ’’طاعون جنوں کا نیزہ مارنا ہے‘‘ (فتح الباری 10؍181) جیسا کہ حدیث میں ہے: وَخْزُ أَعْدَائِكُمْ مِنَ الْجِنِّ ’’یعنی تمہارے دشمن جنوں کا نیزہ مارنا ہے۔‘‘ (مسند احمد 4؍395) اخرجہ احمد عن ابی موسیٰ الاشعری رضی اللہ عنہ۔ اور اس کی مثال طبرانی نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔ " وَخْزُ " واؤ اور خائے معجمہ کے ساتھ، ایسی چوک کو کہتے ہیں کہ جو پار نہ نکل سکے۔ اور یہ ایسا امر ہے کہ اس کو شارع علیہ السلام کی خبر دئیے بغیر جاننا ممکن نہیں، اور اس کی دریافت کی جانب عقل نہیں پہنچ سکتی۔ اس لئے اطباء نے اس کا ذکر نہیں کیا۔ اور بخاری میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ہے کہ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے طاعون کی حقیقت پوچھی تو آپ نے خبر دی کہ وہ ایک عذاب ہے جو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہے اسے بھیج دیتا ہے اور اسے مومنوں کے حق میں رحمت بنایا ہے۔ (فتح الباری 10؍192، کتاب الطلب) اور دوسری حدیث میں ہے: کہ: یہ ایک ایسے عذاب کا بقیہ ہے جو بنی اسرائیل پر بھیجا گیا تھا۔ اور مزید ایک دوسری میں ہے کہ: یہ ایک نبی کی بددعا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ: علماء کی ایک جماعت کی عبارت میں " أَعْدَائِكُمْ " کی جگہ لفظ " إِخْوَانِكُمْ " ہے جو کہ غیر معروف ہے۔ اور حدیث کے طرق میں سے، بڑی جستجو کے بعد مشہور کتابوں اور نامزد رسالوں میں سے یہ کسی طریق میں نہیں ملا، اور اگر ثابت بھی ہو جائے تو بھائی ہونے سے مراد "اخوت تقابلی" ہو گی۔ جیسے کہا جاتا ہے " الليل والنهار " " اي اخوان متقابلان " اور حدیث "زَادُ إِخْوَانِكُمْ مِنَ الْجِنِّ " میں یہی معنی مراد ہے۔ انتہی خلاصہ کلام یہ ہے کہ شرعا اس کی حقیقت، جنوں کا نیزہ مارنا ہے۔ وخنر، عذاب، نبی کی بددعا اور بقیہ حقائق پر حقیقت شرعی مقدم ہے۔
Flag Counter