بجھا دیتی ہے اور اسے طاعون اس لئے کہتے ہیں کہ یہ عام ہوتی ہے اور جلدی قتل کر دیتی ہے۔ (مواہب 3؍489)
اور قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ: یہ ایک پھڑیا (پھنسی) ہوتی ہے جو بدن میں نکلتی ہے اور عام ہونے کے ساتھ ساتھ مہلک بھی ہے اس کو ہلاک کرنے میں نیزہ مارنے کے ساتھ مشابہت دے کر طاعون بولتے ہیں۔
نووی رحمۃ اللہ علیہ نے تہذیب میں کہا کہ: یہ ایسی پھنسی ہے جو گرمی کی وجہ سے بدن میں نکلتی ہے جس میں ورم سخت درد، سوزش اور جلن کے ساتھ اپنے آس پاس کو سیاہ سرخ اور سبز کر دیتی ہے جس کے ساتھ خفقان اور قے بھی ہوتی ہے اور کبھی ہاتھوں انگلیوں اور باقی جسم میں بھی نکلتی ہے۔ (مواہب 3؍490)
اور حافظ ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ: نے ھدی نبوی (یعنی: زاد المعاد فی ھدی خیر العباد) میں کہا کہ طاعون لغت کی رو سے ایک وبا کی قسم ہے۔ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں ہے کہ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ طاعون کیا چیز ہے؟ تو آپ نے فرمایا کہ ایک غدود اونٹ کی غدود کے مشابہ ہوتی ہے جو گلے اور بغلوں میں نکلتی ہے اور چونکہ طاعون اکثر و باخیز شہروں میں ہوتا ہے اس لئے اس کو وبا بھی کہہ دیتے ہیں، جیسے خلیل نے کہا، وبا طاعون ہے۔ اور بعض نے کہا ہر مرض عام ہے۔ اور تحقیق یہ ہے کہ: وبا اور طاعون عموم و خصوص ہے پس ہر طاعون تو وبا میں داخل ہے اور ہر وبا طاعون نہیں۔ اور اسی طرح دوسری عام امراض طاعون سے عام ہیں اور اسے شامل ہیں اور ’’طواعین‘‘ان زخموں کو کہتے ہیں جو طاعون کے اثر سے ہوتے ہیں خود طاعون کو نہیں کہتے۔ لیکن اطباء جب ظاہر آثار کے بغیر اس کی حقیقت کو نہ پا سکے تو انہیں زخموں کو طاعون کہنے لگے۔
اور طاعون تین چیزوں سے عبارت ہے:
ایک: اثر ظاہر، جسے اطبا نے ذکر کیا۔
دوسرا: وہ مرگ جو اس کے سبب سے پیدا ہو۔ اور یہی حدیث صحیح سے مراد ہے،
|