صحاح میں موجود ہیں اور رازی فقیہ متکلم، اصولی، شافعی المذہب ہے اور اس کے احاطہ بالعلوم سے یہ ثابت صحاح میں موجود ہیں۔
اور رازی فقیہ، متکلم اصولی، شافعی المذہب ہے اور اس کے احاطہ بالعلوم سے یہ بات دور نہیں کہ اس نے علم نجوم میں کوئی کتاب تصنیف کی ہو لیکن یہ بات کہ اس نے کتاب میں ستاروں کی پرستش کی طرف دعوت دی ہو، نہایت بعید معلوم ہوتی ہے، یہ بات تو یقینی ہے کہ اس کا مصنف رد و قدح کا محل ہے اور اکابر محدثین نے علم کلام اور فلسفہ میں اس کے خوض کو ناپسند کیا ہے۔ شیخ عبدالحق دہلوی رسالہ ’’مرج البحرین‘‘ میں رقمطراز ہیں کہ: بعض (ماہرین) کشف نے جو کہ آنحضرت کی معنوی صحبت سے مشرف ہوئے فخر رازی کی حقیقت سے سوال کیا تو آپ نے فرمایا: " ذلك رجل معاتب " یعنی وہ ایسا شخص ہے جو معتوب ہے۔ اور ابن سینا کے بارے میں فرمایا: " رجل أضله الله علي علم " یعنی وہ ایسا شخص ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے علم کے باوجود گمراہ کر دیا۔ اور شہاب الدین مقتول کے بارے میں فرمایا: " هو من متبعيه " یعنی وہ ابن سینا کے تابعداروں میں سے ہے۔ اور کہتے ہیں کہ وصل المقصود اور وصل الی المقصود میں فرق ہے، پہلے جملے کا استعمال وہاں کرتے ہیں جہاں انسان مقصود کو پہنچ جائے، اور دوسرا وہاں جہاں مقصود کے قریب پہنچ جائے۔
غرضیکہ اہل اسلام اور (ماہرین) علم کلام کا فلسفیات میں خوض کرنا گو اہل زیغ کے رد و ابطال اور اہل حق کے فائدہ کی خاطر ہوا لیکن اس کے ضمن میں ان کو بھی بڑا نقصان ہوا جو کہ عقائد کے تذبذب، دین کے قواعد کی سستی اور شک تردد کے دروازہ کھلنے کا سبب بنا۔ ایسا شخص تو کم ہی ہو گا جو علم کلام میں خوض و غلو کے بعد حیرت کے بھنور سے نکلا ہو اور یقین کی پونجی نہ کھو بیٹھا ہو ہاں! جسے اللہ تعالیٰ بچا لے تاہم ایسا بہت کم ہوا ہے۔
فانا لله وانا اليه راجعون، انتهي كلامه،
والله اعلم
|