Maktaba Wahhabi

337 - 386
آئے اور اس قسم کی باتیں اپنی تصانیف میں بہت کیں حتیٰ کہ ان کے شاگرد ابوبکر بن عربی نے ان کی کمال تعظیم کے باوجود کہا کہ: ہمارے استاد ابو حامد رحمہ اللہ فلاسفہ کے اندر داخل ہوئے پھر نکلنا چاہا لیکن نکل نہ سکے۔ میں کہتا ہوں: ان کی کتاب تہافت الفلاسفہ اور احیاء علوم الدین اس کے برخلاف پکارتی ہیں، انتہیٰ۔ لیکن ابو الفرج ابن الجوزی نے خفاجی کا تعاقب کیا اور کہا میں نے ان کی کتاب کی اغلاط جمع کیں اور اس کا نام ’’اعلام الاحیاء باغلاط الاحیاء‘‘ رکھا اور ان کی بعض اغلاط کی جانب کتاب ’’تلبیس ابلیس‘‘میں اشارہ کیا، انتہیٰ۔ اور ابو المظفر سبط ابن جوزی نے کہا: احیاء کی بنا صوفیاء کے مذہب پر رکھی اور فقہ کا قانون ترک کیا، تو علماء نے اس کی ان احادیث پر جو صحیح نہیں انکار کیا، لیکن بعض متاخرین نے بحکم " خذ ما صفا ودع ما كدر ([1])" ان کی تصانیف، خصوصا احیاء کی تنقیح کی ہے اور اس کے موضوع کو صحیح، حسن اور ضعیف سے علیحدہ کیا اعرابی نے احیاء کی دو طرح کی تخریج کی ایک کبیر اور دوسری صغیر لکھی ہیں اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے عراقی کی تخریج سے جو چھوٹ گیا اس کا تدارک کیا اور اس پر ایک تخریج مسمی " تحفة الاحياء " تصنیف شیخ زید الدین قاسم بن قطلوبغا حنفی مصری کی ہے جن کی وفات 879ھ میں ہوئیں۔ احیاء میں چار فاسد مواد: شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے یہ جو فرمایا کہ غزالی کی کلام میں، ابن سینا کے شفا وغیرہ میں رسائل اخوان الصفا اور ابو حیان توحیدی کے کلام کے سبب مادہ فلسفیہ ہے لیکن مادہ معتزلیہ اس کے کلام میں قلیل ہے یا معدوم ہے اور احیاء میں اس کی کلام اکثر درست ہے، لیکن اس میں چار مادے فاسد ہیں۔ ایک: مادہ فلسفی۔ دوسرا: مادہ کلامی۔ تیسرا: مادہ صوفیاء کا ترھات (و شطحیات) چوتھا مادہ: احادیث موضوعہ ([2]) انتہیٰ۔ سو شک
Flag Counter