چھ چیزوں کے ذکر پر اکتفا کرنا اس خیال سے ہو کہ اس زمانہ میں عموم بلوی اور کثرت وجود ربا انہیں میں تھا۔ اور چونکہ ان اشیائے ستہ کے علاوہ کا ان کے ساتھ ملحق نہ ہونا بھی صحت کو نہیں پہنچا اس لئے ان کے غیر ان کے ساتھ ملحق کر لینا (تاکہ اس غیر کا حکم اتفاق جنس کی صورت میں کمی و بیشی، ادھار کی حرمت، اختلاف جنس اور اتفاق ملت کی صورت میں صرف ادھار کے حرام ہونے میں انہیں اشیاء کی طرح ہو) بھی بلاوجہ نہیں، علی الخصوص جبکہ محض قیاس نہ ہو بلکہ روایات بھی اس پر دلالت کریں چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جو چیز تولی جائے اور ایک نوع سے ہو برابر برابر لین دین کیا جائے اور جو پیمانہ سے ناپی جائے اس کا بھی یہی حکم ہے، اور جب مختلف دو جنسیں ہوں تو کوئی مضائقہ نہیں (دارقطنی 3؍19، بزار عن عبادۃ و انس رضی اللہ عنہما) لیکن اس کی سند ضعیف ہے، کیونکہ اس میں ربیع بن صبیح ہے، اور ایک (نقاد) جماعت نے اس کی تضعیف کی، اور ابوزرعہ نے اس کی توثیق کی اور حافظ نے تلخیص میں (اس کی جرح و تعدیل) سے سکوت اختیار کیا۔
اور اس کی مؤید صحیحین میں ابن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت بمنزلہ (درخت کے اوپر کے پھل کو کٹے ہوئے پھل سے بیچنا) کے منع ہونے سے متعلق، اور جو مسلم میں ہے درخت کے اوپر پھل کا اندازہ کرنے میں، جس سے انگور اور زبیب میں ربا کا ثبوت ملتا ہے اور یہ ان چھ چیزوں سے عام ہے۔ اور منجملہ الحاق کے دلائل سے، گوشت کا جانور کے بدلے منع ہونا ہے جبکہ ([1]) عرایا میں رخصت ہے اس لئے محققین علماء جیسا کہ صاحب و مصفیٰ وغیرہ نے اسی کی طرف میلان کیا۔ اور یہ اس میں شک نہیں کہ یہ دلائل
|